پی ٹی آئی ورکرز اور ہچکولے لیتا نظام
پی ٹی آئی کے ورکرز
پی
ٹی آئی کی گورنمنٹ کو تقریباً دو سال ہوگئے ان دو سالوں میں بہت سے ایسے اقدامات ہوئے
جو قابلِ ستائش ہیں اور ورکرز کے لیے فخر کا باعث ٹھرے ۔
لیکن
کیا یہ اقدامات کافی تھے ؟
کیا ان اقدامات سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری
آئی؟
کیا یہ اقدامات ان سنہرے خوابوں کی تعبیر تھی جو جو ہر پی ٹی آئی ورکر کو دکھاے گئے؟
ان
سوالوں کے جوابات یقیناً آپ کے پاس ہونگے اور آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تبدیلی کے اس
سفر کو (٫جس میں کچھ دوست 2013 کچھ 2018 اور کچھ میری طرح کے 2008 کے بائیکاٹ سے پہلے
شامل ہوئے ،) مافیاز ، بیوروکریسی،مفادپرست سیاستدانوں نے رکاوٹیں ڈال کر روک دیا ہے؟
میں بھی کسی حد تک آپ سے متفق ہوں ۔آج صبح ناشتے پر ابا جی نے کہا!
پتر لگدا عمران خان فیل ہو گیا اے
غالباً
ان کا اشارہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی طرف تھا اور آج میرے پاس دلائل کی کمی تھی
سو میں چپ رہا
اور اک ہلکی سی مسکراہٹ دے دی
اس
وقت سے میں عجیب کیفیت میں ہوں کہ کیا ابا جی کی امید اس حکومت سے ختم ہوگئی اور کتنے
پاکستانیوں کی امیدیں دم توڑ رہیں یہ سوال جنجھوڑ رہا۔۔۔۔۔
خان
صاحب آپ لکی ٹھرے جو آپ کو ایسے کارکنان ملے ہیں جو پچھلے دوسال کی مجموعی کارکردگی
سے مایوسی کے باوجود آپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ملک کو قائد کا پاکستان بنانے
میں اور آپ کی اپنی خواہش ریاست مدینہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔لیکن کب تک یہ
سوال اہم ہے کیونکہ منحاصل قوم ہمارے صبر کو آزمانا تھوڑا مشکل عمل ہے۔یہ فارمولا تو
پٹ گیا کہ اوپر وزیراعظم ایمان دار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جائے گا کیوں یہ نظام اس
قدر آلودہ ہے کہ اسے ختم کرنا ہوگا ناں کہ اس کو ٹھیک ہونے کا بے سود انتظار
کارکنان
آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی امیدیں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں ماسوائے ان کے جن کے مفادات
آپ کی حکومت سے وابستہ ہیں۔آپ کی پارٹی کا اصل اثاثہ یہی کارکنان ہیں آپ کو مایوس نہیں
کریں گے لیکن آپ بھی تو کہیں سے شروع کریں
ہمیں
پٹرول کی قیمتوں کے اضافے پر تشویش ہے لیکن اس کو لے کر بھی کارکنان امید نہیں ہارے
آپ صرف اس بندے کا بتائیں جس نے آپ کو قیمتیں اتنی کم کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا
اور اگر دیا تو لوگ پٹرول کے حصول کے لیے ذلیل کن لوگوں کی وجہ سے ہوئے اور اب اک دم
کس کے مفادات کا تحفظ کیا گیا؟؟؟
وہ تھانا کلچر کو تبدیل کرنے
وہ سول سروسز ریفارمز
وہ بلدیاتی نظام
وہ دو نہیں ایک پاکستان
اس
کا آغاز تو کردیں اور اگر نہیں کر سکتے تو مخاطب ہوں اپنے کارکنان سے بتائیں جو رکاوٹیں
ہیں کرسی چھوڑیں اور دوبارہ جدوجہد کا آغاز کریں
محترم
کارکنان اک بات یاد رکھنا ہم نے آج تک اپنی اپنی بساط کے مطابق جو بھی پارٹی کے لیے
کیا وہ قابل ستائش ہے آپ نے خاں کا ساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کہ مفاد پرست عناصر اپنے
اپنے مفادات کا کھیل کھیلتے رہیں جیسا 70 سال سے ہوتا آرہا ہے اور ہم چپ بیٹھے تماشا
دیکھنے رہیں۔اتنا یاد رکھنا خاں کی ناکامی ہماری ناکامی ہے۔گورنمنٹ کسی بھی پارٹی کی
ہو 200 خاندان ہی ان 200 خاندانوں کو نوازا گیا عام پاکستانی کی لیے کسی نے کچھ نہیں
سوچا آپ کے لیڈر نے سوچا اسے کرنے نہیں دیا جا رہا کیونکہ وزارتوں سے لے کر حکومتی
امور چلانے اسی کرپٹ سسٹم کا حصہ ٹھرے۔ہمیںں اس دیمک زدہ نظام کے خلاف خاں کی اس جنگ
کو ہرحال میں جیتنا ہے اپنے لیے اپنے بہن بھائیوں بچوں کے لیے۔اس کے لیے ہمییں اس سوچ
کو اپنانا ہوگا جو خاں صاحب کی ہے ہمیں ان سیاستدانوں اور نام نہاد لیڈران کے کے ڈیروں
پر نعرے لگانے سیلفیاں لینے کی روایات کو ختم کر کے اپنے لیڈر کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا
ہوگا ہمیں عمران خان بننا ہوگا اور بار بار اس فرسودہ نظام کو ضرب لگانی ہوگی جب تک
یہ پارہ پارہ ناں ہوجائے۔۔۔۔
یاد رہے!
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی!
Authors Introduction
Mudasir Bajwa is a columnist belong to Sialkot city. He is a Government teacher by profession. He is doing MPhil Mathematics from the University of Sialkot.
1 Comments
Good Analysis
ReplyDeleteHy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.