کڑوا سچ :سیاست اور سماج میں عدم برداشت کیوں؟ تحریر مغیزہ امتیاز


کڑوا سچ :سیاست اور سماج میں عدم برداشت کیوں؟

تحریر مغیزہ امتیاز


میں نے 4 سال کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران سیکھا کہ اب ہمیں اچھا شہری اور اچھا پولیٹیکل سائینس کا طا لب علم ہوتے ہوئے اچھی یا بری جیسی بھی حکومت ہے اس کو ہر حال میں سپورٹ کرنا ہے اپنی پسند اور نا پسند کو سائڈ پر رکھ کر گورنمنٹ کا ساتھ دینا ہے ملک کو اکیلا نہیں چھو ڑنا۔اب گورنمنٹ سیاہی کرے یا سفیدی ہم آپ کے ساتھ ہیں
جی تو یہاں بات آجاتی ہے کہ پڑھی لکھی جاہل عوام
!
وہ عوام جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک تباہی کے دہانے پر جا رہا ہے پھر بھی اپنے لیڈر کو تباہی کیلئے سپورٹ کر رہی ہے ؟ یا وہ عوام جو پی پی پی ،پی ایم ایل این کی سپورٹر ہے ان کی فیورٹ پارٹی کو واپس لایا جائے تاکہ دوبارہ کرپشن کو رواں دواں کیا جائے-یا پھر اسی حکومت کا ساتھ دے کر اپنی ڈیموکریسی کو مضبوط کرنے کی مبہم کوشش کی جائے؟اکثر ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ یوتھیے کیوں ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں آخر یہ وطن ان کا بھی تو ہے- کیا ان سب کے پیچھے کسی ملک کی سازش تو نہیں ؟ کیا مخالف اس ملک کو ڈبونا چاہ رھے ہیں ؟ کیوں ہم ہی اپنے ملک کے محافظ ہونے کی بجائے اس کے دشمن بنے بیٹھے ہیں؟

کیوں گورنمنٹ کے پیروکار نہیں ہیں ہم؟
وجہ کیا ہے ہماری اس خستہ خالی کی؟
کیوں چینی ،آٹا بحران کا شکار؟
کیوں اتنی مھنگائی؟
کیوں پٹرول غائب اور پھر اچانک قیمت بڑھتے ہی دستیاب؟
پھر یہ خیال امڈ آتا ہے کہ ھمیشہ سے ہم تعلیم یہی حا صل کرتے ہیں کہ غلط اور درست میں فرق کرنا ہے۔ ملک کی ترقی کیلئے ہمیں دن رات کام کرنا ہے-پاکستان کو ریا ست مدینہ بنانا ہے،عدل و انصاف مہیا کرنا ہے،مساوات و برابری کو فروغ دینا ہے غرض کہ ہر وہ کام کرنا ہے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو-لیکن یہ سب ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟

مجھے کوئی نون لیگی یا یوتھیا مت سمجھئیے گا میرا بس مقصد نیوٹرل ہو کر حقیقت بتانا ہے-ذاتی لیڈر کی پسند نا پسند کا تعلق بلکل بھی میری تحریر سے نہیں -بہت سارے لوگوں کی تحریروں کو دیکھا -لیکن پڑھ کے ھمیشہ ایک بات ذہن میں آئی اور وہ یہ کہ ہر کوئی اپنے مفاد کیلئے اور اپنے مقصد کیلئے لیڈر چاہتا ہے -ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں کہ ان کو معلوم ایک ٹکے کی بات نہیں لیکن پالیٹیکس میں اہم کردار ادا کر رھے ہیں خواہ ان کا تعلق اپوزیشن سے ہے یا موجودہ حکومت سے ہے-ہر کوئی احتجاج کرنا چاہ رہا حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے-عوام گتھم گتھا ہو رہی کوئی احتجاج اور کوئی ڈیفنڈ کر رہا وزیر اعظم کو -کسی کے یہ الفاظ کے آپکو خان صاحب جیسی شخصیت کا ابھی تک وثن نہیں معلوم -البتہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جو کر رہا وہ کسی کو بھی نھیں معلوم -
خیر! یہ سب بات کرنے کا مقصد کسی بھی پارٹی کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ آشنا ہو سکیں اور بروقت دلوں سے نفرت اور پسند نا پسندیدہ لیڈر کا خیال نکال کر اپنے ملک کی بقاء اور سلامتی کیلئے موجودہ لیڈر کی ہر معاملے میں حمایت کیجئے اور اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیجیئے -ہمارے پاس ایک اعلٰی قسم کی اپوزیشن موجود ہے جس کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ حکومت کی ہر غلط فیصلے پر بھر پور مذمت کر کے

بر وقت صحیح فیصلہ کروا سکتی ہے -مانا کہ عوام پالیسی بنانے میں بھی اختیا ر رکھتی ہے لیکن یہ بات بھی بس کتابوں تک محدود ہے۔
کچھ لوگوں نے عمران خاں کو ووٹ اس لئے دیا کہ وہ ان کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں -کچھ لوگ واقعٰی تبدیلی چاہتے تھے-کچھ لوگوں نے اللہ توکل یہ دعا کر کے ووٹ ڈالا کہ یا رب میرے ملک کی تقدیر سنور جائے- کچھ لوگوں نے اس سوچ سے ووٹ ڈالا کہ چلو نواز ،بھٹو کے ہا تھوں تباہ ہو چکے چلو ایک ٹیسٹ اور سہی کیا پتہ کب چھکا لگ جائے اور ہم واپس قائد کے اس وطن کو واپس حاصل کر لیں -
کیا پتہ تقدیر کے سنورنے کا؟
کیا پتہ عروج و زوال کا؟

اور پھر بات آجاتی پڑھی لکھی عوام کی
!
وہ عوام جس کو غلط درست کی بھی تعلیم دے دی -انکو سب حالات بھی معلوم -اور یہی پڑھی لکھی عوام فتنہ و فساد میں پڑ کر اب ملک کا بیڑا غرق کرے گی-کوئی بھی لیڈر تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اسکی عوام قدم بہ قدم اس کے ساتھ موجود نہ ہو گی - بے شک ڈیموکریسی عوام کی حکومت عوام کیلئے لیکن ڈیموکریٹک ہونے کے باوجود کدھر ہے عوام کی حکومت ؟
ہم بہت ہی نا شکرے لوگ ہیں ہم1947 سے 2020 تک کسی کی بھی گورنمنٹ سے خوش نہیں ہوئے تا ریخ ان سب قصوں سے بھری پڑی ہے
ہم کبھی سویلین کی حکومت اور کبھی فوج کے ہاتھوں برباد ہو چکے 
ہم کبھی نواز چاہتے ،کبھی بھٹو اور کبھی عمران ۔۔۔۔
کبھی ایسی نئی اسلامی حکومت چاہتے جس کا تاریخ میں کوئی نام و نشان نہیں- دراصل المیہ یہ ہے کہ ہمٰیں خود ہی نہیں معلوم کہ ہمیں کیا چاہئے - ہم بہتر نظام چاہتے ،ہم بہتر حکومت چاہتے لیکن کبھی خود کو بھتر نہیں کرنا چاہتے -تو جناب اعلٰی میری معزز عوام! آپکو بھتر حاصل کرنے کیلئے مجھ سمیت پھلے خود کو بھتر کرنے کی ضرورت ہے-جب ہم بھتر ہو نگے تو آٹو میٹیکلی ہر نظام بمعہ لیڈر انشاءاللہ بھتر ملے گا
اگر بھتری چاہتے ہیں تو بھتر ہونا ہوگا
عوام کو بھی اور ہمارے لیڈرز کو بھی
اس تبدیلی کیلئے حکومت پاکستان کو آپ سب کی ایک ملت کے طور پر اشد ضرورت ہے- تبدیلی سوچ سے آئے گی اور ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا ہے-ہمیں ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے-ہمیں نیا پاکستان نہیں چاہیے ہمیں قائد کا وہی پاکستان حالات کے مطابق تھوڑی سی موڈریشن کے ساتھ چاہیے-ہمیں اس قدر تبدیلی نہیں چاہیے کہ ملک کی کشتی ہی ڈبو دیں-اسی عوام کو ذلیل کر دیں جس نے بہت مشکل وقت میں آس و امید کا دیپ جلا یا اور آپ کو سیٹ پر بٹھا یا- وہ عوام جو آپکو سیٹ پر بٹھا سکتی ہے وہی عوام آپکی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپکو اتار بھی سکتی ہے-کیونکہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ کوئی بھی آئے اوراس اسکو کسی بھی طرح اپنے مفاد کیلئے استعمال کر لے۔ہمیں قطعٰی طور پر اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ سیٹ پر کس پارٹی کا لیڈر ہے ہم عوام کو یہ غرض ہے کہ وہ ہمارے ملک کیلئے اور ہماری عوام کیلئے کیا کر رھا ہے-ہمارا عزم مل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی ہے وہ چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت سے ملے- مانا کہ کارکردگی کیلئے وقت چاہیے اس لیئے ہم عوام چاہتے ہیں کہ آپکو بھی آپکی کارکردگی کیلئے جمہورئیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مقررہ مدت میں عوام کی اصلاح اور وطن کی بقاء کیلئے عوام کی سپورٹ کے ساتھ بھتر کارکردگی کا موقع فراہم کیا جائے
بس آس ہے تجھ پہ اے لیڈر
لٹیروں کے ہا تھوں نہ گنوا دینا

Post a Comment

0 Comments