نتھ اتروائی
(ایک طوائف کی محبت کی داستان)
جس نے دھتکارے جانے پر خوفناک انتقام لیا
جب
سے ہوش سنبھالا اس نتھلی کو اس نے اپنی نازک سی ناک میں جھولتے پایا۔۔ دن میں کتنی
ہی بار اس کا ننھا سا ہاتھ اس نتھ سے ٹکرا جاتا۔۔ لیکن عجیب بات یہ کہ یہ نتھ سب لڑکیوں
کے ناک میں نہیں ہوتی تھی۔۔ چھینو کی ناک میں بھی ویسی ہی نتھ تھی۔۔ ایک دن ان کا بڑا
سا گھر بہت سے برقی قمقموں سے سجایا گیا۔۔ رنگ برنگی روشنیاں غضب کا سماں باندھ رہی
تھیں اور مہمان بھی تو بہت آئے تھے۔۔ پھر چھینو پورا ہفتہ گھر سے غائب رہی لیکن جب
واپس آئی تو اس کی ناک میں نتھ نہیں تھی۔۔
ننھی
سی نائلہ جسے سب پیار سے نیلو کہہ کر پکارتے، جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اس پر بہت سے
راز کھلنے لگے۔۔ وہ سکول نہیں جاتی تھی۔۔ لیکن ایک ماسٹر جی ان کے گھر کے بچوں کو پڑھانے
گھر ہی آتے تھے۔۔کھیلتے کودتے نیلو کو اس نتھ سے چھیڑ خانی کرنے کی عادت سی بن گئی۔۔
کبھی کبھی یہ نتھ اسے اپنے وجود کا ایک حصہ لگنے لگتی۔۔۔
کب
بچپن رخصت ہوا اور جوانی آگئی پتہ ہی نہیں چلا۔۔ نیلو اب اس نتھ کا مطلب اچھی طرح سمجھنے
لگی تھی۔۔ اسے چھینو کی نتھ اترنے سے لے کر گھر آنے والے نت نئے مہمانوں کا راز بھی
بتا دیا گیا تھا۔۔ نیلو اور چھینو بازار حسن کی پیداوار تھیں۔۔ ان کی ماں اپنے وقت
کی خوبصورت طوائفوں میں شمار ہوتی تھی۔۔ مال ہاتھ آتے ہی شہر سے باہر بڑی سی کوٹھی
بنا لی۔۔ جہاں دھندا بھی خوب چلتا اور شرفاء کو اس علاقے میں آنے پر کسی ندامت کا سامنا
بھی نہیں کرنا پڑتا۔۔
آج
نیلو کی سترھویں سالگرہ تھی۔۔ پوری کوٹھی کو برقی قمقموں سے مزین کیا گیا تھا۔۔ مہانوں
کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تھا۔۔ رات کی سیاہی پھیلتے ہی بڑی بڑی گاڑیوں میں مہمان
آنا شروع ہوگئے۔۔ بڑی مونچھوں والے امراء۔۔ بڑے بڑے پیٹ والے سرکاری حکام۔۔ کلف لگے
کپڑوں والے زمیندار۔۔ علاقہ بھر کے نامور لوگ موجود تھے۔۔ نیلو کی سج دھج دیکھنے لائق
تھی۔۔۔ نیلو کے بناؤ سنگھار میں کوئی کمی نہ رہنے پائے اس غرض سے اس کی ماں بار بار
میک اپ والی کو ہدایت جاری کر رہی تھی۔۔۔
مشروبات
وغیرہ سے تواضع کے بعد نیلو کیک کاٹنے کوٹھی کے مین ہال میں اتری۔۔ رنگ برنگی روشنیوں
کے جلوے اور زرق برق لباس میں ملبوس نیلو کا ایک ایک قدم مہمانوں کے سینے پر بجلیاں
گرا رہا تھا۔۔ آداب تسلیمات سے سواگت کیا گیا اور نیلو نے جلتی ہوئی موم بتی کا شعلہ
پھونک مار کر بجھایا۔۔ انہیں اداؤں سے کیک پر چھری چلائی۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کی بھونڈی
آوازوں کے ساتھ بے ڈھنگی تالیاں گونجیں اور نیلو کیک کاٹ کر یہ جا وہ جا چلتی بنی۔۔
سب
مہمانوں کو کیک پیش کیا گیا۔۔ اس کے بعد معزز مہمانوں کو ایک الگ کمرہ نشست میں اکٹھا
کیا گیا اور "نتھ اتروائی" کی رسم کے لیے بولی شروع ہوگئی۔۔
نیلو
کی ماں نے بولی ایک لاکھ سے شروع کی۔۔۔
جج
صاحب نے سوا لاکھ کی آواز لگائی۔۔ ڈیڑھ لاکھ۔۔ داروغہ صاحب کی صدا تھی۔۔ دو لاکھ۔۔۔
پاس کے گاؤں کے چوہدری صاحب کی آواز گونجی۔۔ چار لاکھ کی آواز ایک طرف سے آئی۔۔ سب
نے مڑ کر دیکھا۔۔ پچیس سال کا نوجوان ہے۔۔۔ مونچھوں کو تاؤ دیتا بولی ڈبل کرنے پر مغرور
دکھائی دے رہا تھا۔۔
پانچ
لاکھ۔۔۔ یہ پھر سے چوہدری صاحب کی آواز تھی۔۔۔
یوں
لگ رہا تھا جیسے بولی دونوں کے بیچ ہو۔۔ آخر نوجوان نے دس لاکھ پر پالا مار لیا۔۔ یہ
نوجوان ایک مالدار رانا صاحب کی اکلوتی اولاد تھا جن کے انتقال کے بعد تمام تر جائداد
پر اس اکیلے کا تصرف تھا۔۔
نیلو
کی ماں نے باقی معززین سے ہاتھ باندھ کر معذرت کی اور سجی سنوری نیلو کو اس نوجوان
کی گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔۔۔ کنواری لڑکیوں کے شوقین تمام حضرات دل کے ارمان ادھورے
چھوڑ کر چلتے بنے۔۔۔
شہر
سے دور ایک بڑی کوٹھی میں کار جاکر رکی۔۔ نوجوان نے نیلو کو ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے نکالا
اور ساتھ لیے خوبصورت بیڈ روم میں پہنچ گیا۔۔ نیلو جو کسی خرانٹ مرد کی توقع کر رہی
تھی اس خوبصورت نوجوان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔۔ آج اس کی نتھ اتروائی کی رسم تھی۔۔
آج اس کی زندگی میں پہلا مرد آنے والا تھا۔۔ آج کے بعد نہ تو وہ کنواری رہتی اور نہ
ہی اس کے ناک میں نتھ رہتی۔۔ نیلو سمجھ نہیں پارہی تھی کہ دوشیزگی سے ہاتھ دھونے کا
غم زیادہ ہے یا نتھ اترنے کا۔۔ سارا راستہ اسی کشمکش میں گزرا اور اب اس نوجوان کو
دیکھ کو وہ مزید حیرت زدہ تھی کہ یہ خوابوں کا شہزادہ کہاں سے آ گیا۔۔۔
نیلو
کی زندگی کے یہ سات دن کسی خواب سے کم نہیں تھے۔۔ اگرچہ وہ طوائف کی بیٹی تھی لیکن
نتھ اترنے تک اس کی دوشیزگی سلامت تھی۔۔ ان سات دنوں کی قیمت اس کی ماں لاکھوں میں
وصول کر چکی تھی۔۔ آج واپسی کا سفر تھا لیکن نیلو اس حسین نوجوان کے سحر میں ایسی مبتلا
ہوئی کہ دل دے بیٹھی۔۔ جوں جوں واپسی کے لمحات قریب آتے جارہے تھے نیلو کے دل کی دھڑکن
بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔ عین آخری لمحے نیلو نے اپنے ہاتھ اس نوجوان کے قدموں میں رکھ
دیے۔۔
"آپ جانتے ہیں اس نتھ کے اترنے تک میری زندگی میں کوئی مرد نہیں
آیا۔۔ آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے اور آخری مرد ہیں۔۔ میں آپ کو دل دے بیٹھی ہوں۔۔
مجھے اپنے قدموں میں زندگی گزارنے کا موقع دیجیے"
رانا
صاحب نیلو کا یہ رویہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔۔ ایک پل حیرت کے بعد ٹھوکر ماری کر دور
پھینک دیا اور نفرت سے بولے۔۔ "تم جیسی کنجریاں اپنی قیمت وصول کرنے کے بعد محبت
کا ناٹک کرنے لگتی ہیں۔۔ میں تم سے بہتر خرید سکتا ہوں۔۔ چلو نکلو یہاں سے۔۔ تم طوائف
ہو۔۔ اس معاشرے کا گند۔۔ گھر کی عزت بننے لائق نہیں"۔۔
نیلو
سن وجود لیے گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلی گئی۔۔
اس
واقعہ کو اٹھارہ سال گزر گئے۔۔ رانا صاحب نیلو کو بھول گئے اور نیلو رانا صاحب کو۔۔
ان اٹھارہ سالوں میں جانے کتنی ہی دوشیزاؤں کی نتھ اتروائی کی رسم رانا صاحب کے ہاتھوں
پایہ تکمیل تک پہنچی۔۔ جہاں بھی نتھ اتروائی کی رسم ہوتی رانا صاحب کو ضرور بلایا جاتا۔۔
آج
اٹھارہ سال بعد پھر کسی "نیلو" کی نتھ اتروائی کی رسم ہے۔۔ لڑکی کی سج دھج
دیکھنے لائق ہے۔
رانا
صاحب عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ پکے شکاری بن چکے ہیں۔۔ لڑکی کی خوبصورتی پر جی جان سے
فریفتہ ہیں۔۔ بولی شروع ہوئی۔۔ اور رانا صاحب نے بولی جیت لی۔۔
لڑکی
رانا صاحب کی گاڑی میں بٹھا دی گئی۔۔ سات دن۔۔ پورے سات دن۔۔ رانا صاحب کے لیے یہ سات
دن کسی خوشنما خواب سے کم نہیں ہیں۔۔ ساتویں دن لڑکی نے واپسی کی تیاری شروع کی۔۔ ادھر
وقت جدائی ہے۔۔ ادھر رانا صاحب کی دھڑکنیں غیر معمولی تیز ہوتی جارہی ہیں۔۔
عین
آخری لمحے لڑکی کو لینے گاڑی آگئی۔۔ گاڑی سے اتری عورت کا چہرہ رانا صاحب کو اچھی طرح
یاد ہے۔۔ نیلو۔۔۔۔۔ تم۔۔
ہاں
رانا صاحب میں۔۔
تم
اتنے سالوں بعد میری کوٹھی پر کیا کرنے آئی ہو۔۔
کچھ
بتانے آئی ہوں۔۔۔
تم
کہتے تھے نا کہ طوائف اس معاشرے کا گند ہے۔۔ وہ کبھی کسی گھر کی عزت نہیں بن سکتی۔۔
میں آج تمہیں کچھ دکھانے آئی ہوں۔۔
جانتے
ہو اٹھارہ سال۔۔ پورے اٹھارہ سال انتظار کیا تھا اس دن کے لیے میں نے۔۔
میں
نے کہا تھا نا کہ میری زندگی میں آنے والے پہلے اور آخری مرد ہو تم۔۔۔ اٹھارہ سال رانا۔۔
پورے اٹھارہ سال۔۔ ایک ایک پل گن کر گزارا میں نے۔۔۔
جس
دن میں یہاں سے نکلی۔۔ اس دن سے اپنی کوکھ میں تمہاری بیٹی کی پرورش کی۔۔ پھر اسے پیدا
کیا۔۔ پھر اس کے اتنے بڑے ہونے کا انتظار کیا کہ تمہارے بستر تک آنے کے قابل ہوسکے۔۔
اپنی
ہی بیٹی کو بستر کی زینت بناتے وقت تمہارے خون نے جوش نہیں مارا رانا۔۔
لیکن
نہیں وہ غیرت مند لوگ ہوتے ہیں جن کا خون اپنے خون کی مہک سونگھتا ہے۔۔ تمہارے جیسے
بے غیرتوں کے لیے سب ایک برابر ہیں۔۔
اور
تم کہتے تھے نا کہ طوائف اس معاشرے کا گند ہے۔۔ تو ایک بات یاد رکھو۔۔ طوائف آسمان
سے نہیں اترتی۔۔ وہ بھی تم جیسے شرفاء کے نطفے سے ہی نمود پاتی ہے۔۔ جانتے ہو یہ کوٹھوں
پر بیٹھنے والیاں۔۔ یہ سب تمہی لوگوں کی اولادیں ہوتی ہیں۔۔ جنہیں تمہاری آئندہ نسلیں
بستر کی زینت بناتی ہیں۔۔۔ یہاں تمہیں ہر چوہدری، جج، وڈیرے، زمیندار کی اولاد ملے
گی۔۔ جن پر انہی کے بیٹے اپنی وحشت نکالتے ہیں۔۔
طوائف
اس معاشرے کا گند نہیں ہوتی رانا۔۔ بلکہ تم لوگ اس معاشرے کا گند ہو جو طوائفوں کی
کوکھ میں اپنے نطفے چھوڑ جاتے ہو۔۔۔ اور پھر یہ جوان ہوکر تمہارے جیسوں کے ہاتھوں ہی
"نتھ" اتروانے لائق ہوجاتی ہیں۔۔۔اپنی بیٹی کو دیکھو اور سوچو۔۔ کہاں کہاں
نطفہ پرورش پایا ہوگا تمہارا۔۔ اور تمہاری کتنی اولادیں ایسے ہی کہیں نا کہیں
"نتھ" اتروا چکی ہوں گی یا اتروائیں گی۔۔۔
0 Comments
Hy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.