محبت نام پر دھوکہ از قلم:*کومل سلطان خان*

 



"افسانہ"

"محبت نام پر دھوکہ"

از قلم:*کومل سلطان خان*

تجھے تو میرے دکھ معلوم تھے-

جب بے وقت تو رخصت ہوا تھا مجھ سے-

"کچھ لوگ ہمیں اپنے الفاظ سے رویے سے اتنی اذیت دیتے ہیں کہ زندگی میں پھر کبھی ہم سے پیار سے بات کریں یا ہم پر کوئی احسان کریں تو ان سے عجیب سی نفرت محسوس ہوتی ہے"

میرا دل چاہتا ہے میں دور کہیں پہاڑوں میں جا کر بسیرا کرلوں۔ جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو۔

جہاں کوئی مجھے نہ سن پائے۔

 جہاں کسی کو میرے ہونے نہ ہونے کا احساس نہ ہو۔

 جہاں ٹھنڈی ہوا میرے اندر کی آگ کی تپش کو کم کردے۔

جہاں صرف مجھے سنا جائے کوئی تقلید یا تنقید کرنے والا نہ ہو۔۔۔

جہاں میں چیخ چیخ کر اپنے دل کی کیفیت کو سنا سکوں۔۔۔

جہاں مجھے دلاسا دینے والا کوئی نہ ہو۔۔۔

اور نہ ہی میری بے بسی پہ رونے والا کوئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کیوں ہو اتنی بے حس؟

 تمھارے سینے میں دل ہے کہ پتھر؟

تمھیں کسی کی تکلیف نظر نہیں آتی؟

کتنی بار کا پوچھا گیا یہ سوال آج پھر وہ اس کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں-

 کیوں تھی وہ اتنی بے حس؟

 نہیں وہ کبھی بھی اتنی بے حس نہیں تھی- وہ تو بہت چلبلی سی لڑکی تھی ہر وقت ہنستی رہتی- سب کو تنگ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا- ہر وقت اودھم مچائے رکھتی تھی- ایک عجیب سی چمک تھی اس کی آنکھوں میں بچپن کی محرومیوں کو کبھی خود پر حاوی نہیں ہونے دیا
تھا-

 زندگی بھر پور طریقے سے جینے والی زندہ دل لڑکی لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا- جس نے اس کے ہونٹوں کی ہنسی اس کے آنکھوں کی چمک اس کی زندگی سب چھین کے اسے بے حس اور کٹھور پتھر کی مورت بنا دیا اور اس میں غلطی بھی اس کی خود کی تھی کس نے کہا تھا تم سے کہ ایک نامحرم پر یقین کرو کس نے کہا تھا اپنا سب کچھ اس پر وار دو کیا تم نہیں جانتی تھی یہاں قدم قدم پر بھیڑیے ہیں- تمھیں نوچ کھانے کے لیے پھر بھی ایسی بیوقوفی کیوں کی؟

آج پھر ایک بار وہ اپنے سامنے کھڑی اس بے حس لڑکی کو جھنجھوڑ رہی تھی لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتی تھی- زندگی جینے کی چاہ جب ختم ہو جائے تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا نہ کوئی خواب نہ کوئی آس۔۔۔۔۔ تمھاری یہ حالت تمھارے ساتھ ساتھ مجھے بھی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے- مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے تمھیں اس حال میں دیکھ کے جواب دو کیوں ہوئی تم سے یہ بیوقوفی؟

خدارا تھوڑا رحم کھاؤ اپنے اوپر بھی اور مجھ پر بھی کاش میں تمھاری زندگی سے یہ سب مٹا سکوں-

اس نے ایک پل کو اس کی طرف دیکھا اور خود اذیتی سے مسکرا دی اس کے لب آہستہ سے وا ہوئے تم اچھے سے جانتی ہو میری زندگی سے یہ تلخ یادیں کوئی بھی نہیں مٹا سکتا- میں خود بھی نہیں میں جتنی مرضی کوشش کر لوں- دن با دن یہ زخم ناسور بنتے جا رہے ہیں- یہ زہر دھیرے دھیرے میرے جسم میں سرایت کرتا جا رہا ہے- جس نے میری روح تک نیلی کر دی ہے اور میں خود اپنا تماشہ دیکھنے پر مجبور ہوں-

 میرا دل چاہتا ہے میں چیخوں چلاؤں کوئی میرے آنسو صاف کرنے والا نہ ہو-

 کوئی میری چیخوں کو سننے والا نہ ہو-

 اور پھر ایسے ہی میرے جسم سے روح پرواز کر جائے-

 اور مجھے ابدی سکون مل جائے-

 کبھی کبھی مجھے خود سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ دل کرتا ہے خود کو آگ لگا دوں سب ختم کردوں-

 لیکن تمھیں پتہ ہے میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی-

 میری اس بے بسی کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا-

 میں نے اپنے کرب کو اپنے اندر دبا کر اپنے ہونٹوں پر ہنسی بھی سجا لی ہے-

 خود پر خوشی کا لبادہ بھی اوڑھ لیا ہے-

 کسی کو اس کرب تک رسائی نہیں دیتی-

 لیکن تمھیں پتہ ہے اس کرب کے ساتھ بچپن کی محرومیاں بھی منہ کھول کے مجھے نگلنے کو تیار کھڑی ہیں-

 تم نے کبھی ایسا پرندہ دیکھا ہے جس کے پر کاٹ کے اسے کہا جائے اڑ جاؤ اور وہ اڑ بھی نہ پائے-

 میری مثال بھی اسی پرندے کی سی ہے جس کے پر کاٹ کے اسے آزاد کر دیا گیا ہے-

 

کوئی پوچھے میرے دل سے کیسے یہ زہر پیا ہے-

مرنا کس کو کہتے ہیں جیتے جی یہ جان لیاہے-

تم مجھ سے پوچھتی ہوں نہ کیسے ہوئی مجھ سے یہ بیوقوفی؟ مجھے نہیں پتہ مجھ سے کیسے ہو گئی یہ بیوقوفی؟

 میں کیوں اتنی اندھی بن گئی کہ ایک نامحرم کی باتوں پر یقین کر بیٹھی-

 مجھے نہیں پتہ وہ کہاں ہو  گا کیسا ہو گا کیا کر رہا ہو گا کیا اب بھی وہ پہلے جیسے ہی ظالم ہو گا یا کچھ بدل گا ہو گا میں اس سے بس ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں میرا سکون چھین کے وہ خود کیسے سکون سے رہتا ہو گا؟

 اس نے جو بھی کیا میرے ساتھ وہ سب سوچ کہ کبھی اس کے ضمیر نے اسے ملامت نہیں کی ہو گی کیا اسے وہ وقت یاد ہو گا جب میں اس سے بات کرنے کو تڑپتی تھی جب وہ مجھے ہمیشہ چھوڑ جانے کی بات کرتا تھا اور یہ سن کر ہی میری روح فنا ہو جاتی تھی اسے سب پتہ تھا پھر بھی اسے مجھ پر ذرا ترس نہیں آیا-

 جب وہ اتنا ہی مجبور اور لا چار تھا تو مجھے اس راہ کا مسافر بنایا ہی کیوں جس کی کوئی منزل ہی نہیں تھی؟

 میں نے تو اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کیا تم مجھے کہتی تھی یہ سب جھوٹ ہے لیکن میں سب کچھ جانتے بوجھتے اس پر یقین کرتی تھی کہ نہیں وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ تو میرے سے بہت محبت کرتا ہے اس نے مجھے بار بار دماغی ٹارچر کیا اپنے جانے کی بات کر کے اور وہ چلا بھی جاتا تھا پیچھے میں روتی بلکتی رہتی تھی لیکن اسے مجھ پر ترس نہیں آتا تھا- میں تب بھی نہیں سمجھ سکی کہ اسے مجھ سے محبت نہیں ہے کیوں کہ جن سے محبت ہو ان کی آنکھ کا ایک آنسو برداشت نہیں ہوتا اور وہ تو مجھے بلکتا دیکھتا تھا  اور اسے

"محبت نام پہ دھوکہ"

مجھ پر ترس نہیں آتا تھا پتہ ہے کیوں؟؟؟؟

 کیونکہ وہ تو بس ٹائم پاس کر رہا تھا میرے دل سے اور مجھ سے کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔

تمھیں پتہ جب وہ مجھے چھوڑ کے گیا مجھے زیادہ فرق نہیں پڑا کیونکہ یہ سب اتنی بار برداشت کر کے میں بے حس بن گئی تھی- میں اس مقام پر آ گئی تھی کہ اس کے جانے سے مجھے کوئی خاص فرق نہیں پڑا-

 میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ اسے اللّٰہ پوچھے گا اس کے ساتھ میں بھی تو برابر کی شریک تھی لیکن میرا رب میرے دل کا حال میرے سے بہتر جانتا ہے-

اس نے پتہ ہے کیا کیا؟

 اس نے مجھ سے میری ہنسی، میری زندہ دلی سب چھین لی- میری دماغ میں اتنی سوچیں بھر دی کہ میں سارا سارا دن سوچتی رہتی ہوں-

 اور کبھی کبھی مجھے لگتا میرے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی لیکن میں ٹھہری صدا کی ڈھیٹ کچھ بھی نہیں ہوتا مجھے کیا ملا اسے یہ سب کر کے؟

 کبھی کبھی دل کرتا میں اسے بد دعا دوں-

 جیسے میں تڑپ رہی وہ بھی ایسے ہی تڑپے-

 اسے بھی کہیں سکون نہ ملے-

 وہ میرے پاس آئے تڑپے اور تب میں بھی اس کی طرح بے حس بن کر اسے تڑپتا چھوڑ کر اس سےمنہ موڑ کے چلی جاؤں پھر اسے بھی احساس ہو میرے درد کا، میری اذیت کا-

 پہلے میں زندگی جیتی تھی اب زندگی مجھے گزار رہی ہے- میں لوگوں کے لیے زندہ ہوں لیکن اندر سے مر چکی ہوں- میری روح ویران ہو چکی ہے- میری آنکھیں ہر خواب سے خالی ہو چکی ہیں- میں اسے معاف نہیں کر پا رہی چاہ کر بھی نہیں کر پا رہی-

 منہ سے کہہ بھی دوں جاؤ میں نے اسے معاف کیا لیکن یہ میرا دل
میری روح اسے معاف نہیں کر پا رہی-

 میں خود اپنے آپ سے اور اپنے اللّٰہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی- مجھے اس سے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے- میرا ضمیر مجھے جینے نہیں دیتا میں کیا منہ دکھاؤں گی اللّٰہ کو پتہ نہیں وہ مجھے معاف کرے گا بھی کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔

اگر کبھی میرا دل میری روح وہ ساری اذیت بھول سکے جو اس نے مجھے دی ہے- تو شاید میں اسے دل سے معاف کر سکوں لیکن ابھی میں کچھ بھی نہیں بھول پا رہی---

جس دن آخری عدالت لگے گی نہ اس دن ایک بار اس سے ضرور پوچھوں گی میرا قصور کیا تھا؟

 اور تب اسے جواب دینا ہو گا تب وہ کہیں بھی نہیں بھاگ سکے گا میں بھی اپنے کیے کی سزا بھگتوں گی اور شاید بھگت رہی لیکن اسے بھی جواب دینا پڑے گا اور وہ بھی بھگتے گا ان شاء اللّٰہ-

تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا-

تمھیں شاید اذیت راس آ گئی ہے-

 اب تم اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتی بنی رہو بے حس-

 میں ہی بیوقوف ہوں جو ہر بار پتھر سے سر پھوڑنے آ جاتی-

 جا رہی ہوں میں اب کبھی نہیں آؤں گی تمھیں سمجھانے-

  ہر بار کے کہے گئے جملے اس کی سماعت میں انڈیل کے وہ وہاں سے جا چکی تھی-

 لیکن اسے پتہ تھا کہ وہ واپس آئے گی کیونکہ وہ اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتی اور اس کے لیے سوچوں کے در پھر سے وا ہو گئے تھے- جو شاید اس کی سانسوں کے ساتھ ہی ختم ہونے تھے کون جانے۔۔۔۔

بس آخر میں سبہی لڑکیوں کو  میسیج دینا چاہوں گی کہ

 ایک لڑکی کے اختیار میں پوری ایک نسل کا کردار ہوتا ہے- بہادر بنیں اللہ نے آپکو عظیم بنایا ہے- عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے۔ اس لیے خدرا خود کو بے مول نہ کیجئے- پردہ اختیار کیجئے اور حیا کی حفاظت خود کجیئے۔

اپنے کردار کو موسموں سے بچائے رکھنا

لوٹ کر آتی نہیں پھول میں خوشبو

۔۔۔۔ختم شدہ ۔۔۔۔


Post a Comment

0 Comments