عنوان : آخر قصور کس کا؟از قلم : انیقہ ملک

 

عنوان : آخر قصور کس کا؟

از قلم : انیقہ ملک

آج ایک ایسا سوال پوچھنے جا رہی ہوں جسکا جواب تو سب کے پاس ہے پر دینا کوئی نھیں چاہتا اور وہ یہ کہ کیا لڑکی ہونا گناہ ہے؟ میں نے تو ہمیشہ سے یہی سنا یہی پڑھا کہ لڑکی رحمت ہوتی ہے پھر بھی وہ زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ سب کے لئے کیوں اسکو وہ پیار وہ عزت نہیں مل پاتی جس پے اسکا حق ہوتا ہے اور یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہو رہا ہے لڑکی جتنی بھی کامیاب ہو جائے اوراگر غلطی سے بھی اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے اور اس کے جسم پے کوئی نشان رہ گیا تو وہ لڑکی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔اگر لڑکی کی شادی کر دی جائے تو لڑکی کھلونا بن کر رہ جاتی ہے- 

Stand with women
Protect your Daughter

 کیوں کہ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے بس یہی کہا جاتا ہے کہ اب وہی تمہارا گھر ہے اور تمہیں ہی اسکو اپنا بنانا ہے پھر چاہے اس کو کتنی ہی اذیت سے گزرنا پڑے اسکو بنا کچھ کہے بس گھر بسانا ہے اور اگر غلطی سے بھی لڑکی اپنی خواہش ظاہر کر دے تو اس کو گالیوں، گھٹیا الزامات اور مار پیٹ کی حد تک اسکو اذیت دی جاتی ہے پر پھر بھی وہ چپ چاپ اپنے والدین کی کہی گئی بات سوچ کے اپنے آنسو دبا کر ہر ظلم سہتی ہے اس لئے نہیں کے وہ کمزور ہے بلکہ اس لئے کے وہ اپنے والدین کی عزت اور انکی دی گئی نصیحت کا پاس رکھتے ہوئے اپنے آنسو خاموشی سے پی جاتی ہے-                                        

 میں پوچھتی ہوں کیا قصور ہے میرا کیوں کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ایک ایسی لڑکی جو اپنا ہر فرض پورا کرنے کے لئے خود کو ختم کر دیتی ہے اپنی خوشیوں اپنے خوابوں کو مار دیتی ہے کہ اس کے اپنے خوش ہوں اسکی عزت کریں اور تھوڑا سا پیار دیں گے کیا یہ سوچنا میرا قصور ہے اتنا سب کرنے کے بعد بھی اسکو یہ کہ دیا جاتا ہے کہ تم ہمارے لئے کھلونا تھی اور اب ہمارے قابل نہی رہی اور اب فارغ ہو میری طرف سے تو وہ لڑکی جیتے جی مر جاتی ہے اور جب سسرال سے ٹھکرا دینے کے بعد واپس آ جاۓ تو بھی وہ سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور سچ جاننے کے بعد بھی اس کو وہ سہارا نہی ملتا جس کے لئے وہ اپنی ذات ختم کر دیتی ہے اس کے باوجود وہ ملزم بن جاتی ہے کیوں کہ اگر رخصت کرتے ہوئے اسکو یہ کہا جائے کے بیٹا کچھ بھی ہو جائے تمہارا گھر ہمیشہ کھلا ہے تمہارے لئے تو شاید بیٹی مجرم بن کر نہ آۓ۔  یہ قصور ہے میرا کہ سبکی عزتوں کا پاس رکھنا۔         

اپنی عزت کے بارے میں سوچ کے اگر کچھ بول دیا جائے تو وہ بھی قصور بن جاتا ہے۔شوہر کہے کے بچہ نہ ہو اور اگر ہو گیا تو دونوں کو جان سے مار دے گا اور سسرال والے کہتے ہیں کہ بچہ ہو جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا اب لڑکی کس کی سنے؟ کس کی نہ سنے؟ اور پھر اس میں لڑکی کا ہی قصور آ جاتا ہے۔                              

فیس بک پے اگر شادی کا ذکر ہو جائے تو اس میں سب کو 4 شادیوں کا حکم یاد آ جاتا ہے پر یہ بات یاد نہی رہتی کہ کس شرط پر حکم دیا گیا اس پر بیوی اگر بول دے تو اس کا قصور سامنے آ جاتا ہے۔میں پوچھتی ہوں کیوں لڑکی کو ہی ہر بار پھانسی پہ لٹکایا جاتا ہے کیا قصور ہے؟کیا لڑکیاں بس گالیاں کھانے کے لئے رہ گئی ہیں؟ ایک ایسی لڑکی جس کی شادی کو دو دن ہوئے اور اسکو مارنا شروع کر دیا جائے گالیاں دی جائے اور وہ پھر بھی خاموشی سے اپنا گھر بسانے کے لئے سب کے سامنے ہنستی رہتی، کسی کو کچھ نہیں بتایا-                                                                                                  

 اسکو لگا کوئی بات نہیں دن ہی کتنے ہوئے ہیں وہ دل جیت لے گی پر اسکی یہ غلط فہمی تھی دن با دن ظلم بڑھتا جارہا تھا اور وہ خوف سے کسی کو کچھ نہیں بتا پا رہی تھی کیوں کہ اسکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اسکے اٹھنے بیٹھنے سونے ہر کام پے بس گلیاں ملتی رہیں اور وہ کسی کو کچھ نہیں بتا رہی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ابو تو ہیں نہیں پر اسکی ماں نے جیسے شادی کی بس وہی جانتی تھی اور اس لئے وہ چپ رہی اسکو غلط ادويات دی جانے لگی اور ایک دن اسکو اپنے ہی داماد کے سامنے اپنے لفظوں سے بے لباس کر دیا گیا تھا اور وہ اس وقت ساکت کھڑی سنتی رہی اور اسکا شوہر خاموشی سے سب سنتا رہا اور اس کی ماں بولتی رہی اور اگلے دن اللّه کو رحم آ گیا-                                                                        

 اس پہ اور کچھ ایسا ہو گیا کہ وہ واپس گھر آ گئی پر پھر بھی اس لڑکی کے سسرال والوں کو سکون نہیں ملا اور اس پہ گھٹیا الزامات لگانا شروع کر دئیے- یہاں تک کے اسکا جہیز ،اسکے کپڑے تک اسکو نہیں لینے دیے اور اس پر بد چلنی کا الزام لگا دیا اور جب سب کے سامنے حقیقت آئی تو سب نے کہا پہلے کیوں نہیں بتایا تو اس لڑکی نے ایک سوال کیا پہلے بتا دیتی تو کیا آپ سب مجھے یہ نہیں بولتے کے ابھی دن کتنے ہوئے؟                                                                

 ہو جاتا ہے صبر کرو اور سب خاموش ہو گئے کیوں کہ سب جانتے ہیں ہمیشہ یہی بول کر بیٹی کو خاموش کروا دیا جاتا ہے تا کہ اسکا گھر بسا رہے پر میں پوچھتی ہوں کیا اس لڑکی نے جو کیا اس میں کس کا قصور ہے واپس آنے پر ہر ایک کو صفائی دینا کے میرا دامن پاک ہے اس میں کس کا قصور ہے پورا سال ہو گیا پر اسکا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تو اس میں کیا میرا قصور ہے کیوں کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں میں خود ہوں اتنی اذیت سہی کس لئے تا کہ گھر بسا رہے جو بسنے سے پہلے ہی خراب ہو چکا تھا آج بھی میں انصاف کے انتظار میں ہوں پر سب خاموش ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے؟                              

ہر لڑکی کو بولنے کا موقع نہیں ملتا کیوں کہ انکو بس خاموش تماشائی بننے کو کہا جاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب اس کے اپنے اسکو عذاب سمجھنے لگتے ہیں، بوجھ سمجھنے لگتے ہیں، کبھی کبھی انسان کچھ نہ کہ کر بھی وہ سب بول جاتا ہے جو ہم جیسی لڑکیوں کو بے بسی کی تصویر بنا دیتے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور؟             

پر ایک بات کی خوشی ہے کہ اللّه پاک نے مجھے یہ سب بولنے کا موقع دیا تو آج میں ان سب والدین سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کروں گی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے اس بات کا یقین ضرور دیں  کہ اسکے رخصت ہونے کے بعد بھی اسکا گھر ہمیشہ سلامت رہے گا تا کہ پھر کوئی خاموش تماشائی بن کر اپنی زندگی داؤ پر نہ لگائے اسکو اس بات کا یقین ہو کے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ اس گھر کا حصہ ویسے ہی رہے گی جیسے پہلے تھی-                                                  

 اور اگر آپ اپنی بیٹی کو یہ یقین نہیں دے سکتے تو انکو رخصت نہ کریں کیوں کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ انسان کے لباس میں آپکی بیٹی کسی وحشی درندے کا شکار نہ ہو جائے میری طرح۔ کیوں کہ کوئی بھی والدین جان کر اپنی بیٹی کو جانور کے سامنے پیش نہیں کرتے پر آپکے بھروسہ نہ دینے پر وہ جانور وحشی درندہ ضرور بن سکتا ہے- کیوں کہ وہ جان چکا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ اب کوئی نہیں ہو گا تو شکار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور آج میں جو بھی بول پا رہی ہوں اس میں میرے اللّه نے کچھ دوست ایسے عطاء کر دیے جنہوں نے مجھے ہمت دی کہ میں بھی بول سکتی ہوں- اس بات کا احساس دلایا کہ میں بھی انسان ہوں، میری بھی خواہشات ہیں جن کو جینے کا حق ہے میرا- اس میں میری پھپھو کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے مجھے سمجھایا- میری فیملی، میری بہنیں اور میری دوست اور میری عوامی للکار کی ٹیم جس نے مجھے میری پہچان دی سر فیصل ندیم جن کی وجہ سے آج میں آپ کے سامنے بول سکی اور میرے جیسی نہ جانے کتنی لڑکیاں ہوں گی جو یہ سب بولنا چاہتی ہوں گی پر نہیں بول سکتیں انکی آواز بن کر آج میں یہ بات کر رہی ہوں کہ اگر ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس میں ہمارا قصور نہیں اگر کوئی ہمارا اور ہمارے احساسات کا مذاق بناتا ہے تو اس میں بھی ہمارا قصور نہیں اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا اور بیوی اسکی وجہ سے وہ رشتہ توڑ کر واپس آتی ہے تو اس میں بھی ہمارا قصور نہیں ہے ۔                                                                                     

ہاں! ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے ساتھ خود ظلم کرتے ہیں- ان لوگوں کے بارے میں سوچ کے جن کو کبھی رشتے کا اصّل مطلب ہی نہیں پتہ چلتا اور میں آگے بھی آواز بلند کروں گی- جب بھی ایسا ظلم ہو گا اور پھر سب کو جواب دینا ہو گا کہ اب بتاؤ کس کا قصور ہے؟ تب سب کو جواب دینا ہو گا۔میرے ابو کہا کرتے تھے کہ غلطیاں ہم کرتے ہیں پر اسکا الزام ہم نصیب پہ ڈال کر بآسانی آزاد ہو جاتے ہیں- پر جب کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو سارا کریڈٹ خود رکھ لیتے ہیں- کبھی اپنی غلطی نہیں مانتے اس لئے جب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہو یا تمہیں لگے کہ تمہارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تو اللّه کی عدالت میں اپنا کیس پیش کر دو پھر دیکھنا تمہیں انصاف ضرور ملے گا اور میں جانتی ہوں- مجھے انصاف ملے گا کیوں کہ اللّه پاک سے بہترین انصاف کرنے والا کوئی نہیں اور جب وہ انصاف کرے گا تب پوری دنیا دیکھے گی۔إنشاءاللّٰه                                                               

آج  میں شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ایسے باپ کی بیٹی ہوں جس نے ظلم سہا تو ہے پر کسی کے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے کا سوچا بھی نہیں آج میں کہتی ہوں میرا کوئی قصور نہیں جس کو جو سوچنا ہے سوچے جو بولنا ہے بولے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ میرے ساتھ میرے ابو ہمیشہ میرے ساتھ ہیں انکی دعا ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور آج  میں فخر سے کہتی ہوں کہ میں ملک فتح اللہ کی بیٹی ہوں جنہوں ہمیشہ سکھایا کبھی کسی کے آ گے ہاتھ نہ پھیلانا جو بھی کرنا اپنی محنت سے کرنا اور آج میں اپنی پہلی پہچان اپنے ابو کے نام کرنے جا رہی ہوں کہ میری طاقت میرے ابو ہیں اور میری ہر کامیابی بھی انکے نام ہو گی إنشاءاللّٰه


Post a Comment

0 Comments