جنو بی ایشیا کا مستقبل اور نا اہل مودی حکومت
ازملک ارسلان اعوان
کہتے
ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے ناں جائے، بھارت
کی مثال باکل ایسی ہی ہے۔ جس طرح
بھارت نے گلگت کے
موسم کا
حال بتانا شروع کیا اسی طرح لداخ کی
گلوان وادی میں یکطرفہ طور
پر حالات کو بدلنے
کی کوشش کی، اور صرف یہی نہیں دو اور محاز
بھی اس کے ساتھ ہی کھول لیے، ایک تو نیپال کے ساتھ متنازعہ
علاقے پر سڑک کی تعمیر کا معاملہ اور پھر
مقبوضہ کشمیر میں
آرٹیکل 370 کا خاتمہ
اور کشمیری شہریوں کا قتل عام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ا
ب اس سب میں کیا ہوا کہ چین نے بھارت کے 20 فوجیوں کو مار گرایا اور
لداخ کے متنازعہ علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا،
راہول گاندھی چلاتے رہ
گئے کہ کہاں ہے مودی سرکار، کہاں چھپے بیٹھے
ہیں سامنے آئیں مگر مودی کی آواز تک نہ آئی،ادھر پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تو گلگت کے معاملے
پر بھی بھارت کی سانس حلق میں رک گئی، نیپال نے اپنے نئے نقشے کی منظوری دے کر بھارت
کو شٹ اپ کال دے دی وہاں بھی معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا، اب بات رہ گئی آرٹیکل 370 کے خاتمے
کی! تو اس پر پوری دنیا پہلے ہی بھارت کو لعن طعن کر رہی ہے ۔
پاک
چین دوستی کی مثال دو سگے بھائیوں جیسی ہے اس لیے چین کی طرف سے منہ کی کھانے کے بعد
بھارت سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاکستان کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے کیونکہ پاکستان اپنی صلاحیت کا ڈیمو پہلے ہی دے چکا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کیا خوبصورت بات
کہتے ہیں کہ دن کی روشنی میں واہگہ سے آنے والوں کو ہم بہت عزت دیتے ہیں مگر رات کی
تاریکی میں آنے والوں کا حال وہ کرتے ہیں جو 65 میں کیا تھا۔۔۔ یہ بات بھی تارڑ صاحب
نے ایک پس منظر میں کہی تھی وہ قصہ پھر کبھی سہی۔۔۔
Back
to the point!
حالیہ
جھڑپ میں چین کے ہاتھوں جو 20 بھارتی فوجی مرے ہیں اس سلسلے میں کینیڈین انگلش اخبار فنانشنل پوسٹ نےایک تحریر لکھی ہے جس
میں مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور چین کے ساتھ جھڑپ کو لنک کیا گیا ہے۔
اس
اخبار نے لکھا ہے کہ مجموعی طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے پر اعتراض کرنے کا یہ
ایک مختلف طریقہ ہے، اور اس اقدام سے متعدد محاذوں پر چین کو فائدہ ہوتا ہے اور اس
سے چین پاکستان کے ساتھ اپنا اتحاد مزید مضبوط کرسکتا ہے ۔
سو
یہ تو اس بات کی تائید ہے کہ دنیا اچھے سے جانتی ہے بھارت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی
مار رہا ہے۔ مگر اس جھڑپ نے بعد بھات نے چین کے ساتھ اپنے
Rules of engagement
بدلنے
پر غور شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ بھارت ماضی میں تقریبا پانچ دہائیو ں پہلے ارونا چل
پردیش کی سرحد پر ایک ٹریلر دیکھ چکا ہے اس
جھڑپ میں بھی 4 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔
سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کو ہر محازپر شکست کے بعد کیا اب عقل آگئی ہو گی ؟ کیا بھارت
یہ سمجھ چکا ہے کہ ہٹ دھرمی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں؟
پاکستان ،چین،بھارت تینوں ایٹمی قوتیں ہیں
ایسی
جنگ اگر بڑھ گئی تو پاکستان یقینا اس کا حصہ ہوگا اور ایسی صورت میں یہ امکان موجود
ہے کہ بھارت کشمیر کا ایک بڑا حصہ کھو دے گا ، یہ حصہ لداخ ہوا تو بھارت کافالس فلیگ آپریشن کے ذریعے آزاد کشمیر پر حملے اور سی پیک راہداری کو تباہ کرنے کا خواب چکنا چور ہوجائے
گا اور سی پیک وہ
واحد راستہ ہے،جس کی حفاظت کا ذمہ خود چین نے لے رکھا ہے۔ لداخ میں پیش قدمی کسی طور
چین اور بھارت کی آپسی جنگ نہیں ہے۔یہ براہ راست پاکستان اور کشمیر کی بھی جنگ ہے۔
بڑے
نقصان اور جنگ سے بچنے کا واحد راستہ امن ہے ۔۔کیونکہ جنگ کی صورت میں ممکنہ طور پر ایک ارب انسان متاثر
ہوں گے، کیونکہ صرف 3 ممالک نہیں بلکہ پورے
خطے کی جنگ ہو گی ۔
جوہری
ہتھیاروں سے متعلق ہمیں اپنی سوچ بھی تبدیل کرنا ہوگی-
بھارت
نے رواں سال نہ صرف یہ محاز کھلے رکھےبلکہ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر بار بار سیز فائر معاہدے کی
خلاف ورزیاں کیں، بار بار فالس فلیگ آپریشن کا
ماحول بنانے کی کوشش کی، بار ہا دور اندازی
کے پلان بنائے اور بیان دئیے مگر پاک فوج کے مؤثر، بر وقت اور منہ توڑ جواب
نے بھارتی بندوقیں خاموش کروا دیں۔
خطے
میں اس تمام ٹیشن کا ذمہ دار بھارت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کہ اگر صوتحال جنگ کی جانب
جائے گی تو سب سے زیادہ نقصان بھارت کااپنا ہو گا، بھارت کی جغرافیائی حیثیت، آبادی،اور
تمام دیگر عناصر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کے ہاتھ کچھ بھی نہیں سوائے عزت بچانے کے۔
چین
اور پاکستان کسی بھی صورت بھارت کو خطے میں بد امنی پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے
اگر چھیڑ چھاڑ کی گئی تو پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور افواج پاکستان اپنا دفاع کرنا
بخوبی جانتی ہیں۔
امید
کرتا ہوں میری آواز اگر ایڈولف مودی تک پہنچے تو میرے مشورے پر ضرور عمل کریں گے اور راہول گاندھی کے سوالوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ملک کی غربت ، بھوک اور بے روزگاری پر اپنے وسائل خرچ
کریں گے ناں کہ یہاں وہاں سے بے عزتی کروانے
پر۔۔۔
میرا
مشورہ آپ کو بھی پسند آئے تو اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔
Author Introduction
Malik
Arsalan is a budding columnist, author, renowned social media activist, and
entrepreneur based in London, England. He is a lawyer by profession and a
loving humanitarian from the heart. He can be reached at “Azad Lab with Malik
Arsalan” on Facebook, a forever growing social media platform accoutered to
provide the masses with honest and verifiable updates, motivational videos,
posts, and opinions of the author himself. In a world where people want to
believe those things as facts, that they find to be convenient, Malik Arsalan
is affixed to provide only that news and updates that are factual and true by
all accounts. He also writes columns for multiple newspapers which includes
English and Urdu language.
Malik
Arsalan has shown proper prowess as a promising social media activist, by
having quite a lot of following across all major social media platforms, which
include Facebook, Instagram, and Twitter. He can be reached @Arsalansaysazad on
twitter and @Arsalansaysazad on Instagram. Arsalan has also proudly represented
as the UC President at the National Peace and Justice Council, where he was the
lynchpin in uniting the people of Pakistan regarding religious views and
resolving issues regarding religious affairs through dialogue and awareness. As
the representative and UC President, he has given many motivational lectures as
well. Malik Arsalan's accolades and charismatic personality surely inspires
everyone in making the most of their lives.
3 Comments
Interesting
ReplyDeleteWow MashaAllah accurate description
ReplyDeleteKeep it up
MashaAllah description umda
ReplyDeleteHy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.