مسئلہ کشمیر اور ہماری حماقتیں تحریر اختر چیمہ

  



مسئلہ کشمیر اور ہماری حماقتیں

اختر چیمہ

گزشتہ 72 سال سے کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازع کا بنیادی سبب ہے- پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کی وجہ سے چار خونی معرکے بھی ہو چکے ہیں- مگر اصل مسئلہ ہنوز حل طلب

 ہے- تقسیم کے وقت ہندوستان میں 635 خود مختار ریاستیں تھیں-

3 جون 1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی ریاست کی جغرافیائی حیثیت اور اپنی عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کر لیں-

کشمیر کے ساتھ ہمارے تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور سماجی رشتے تھے- غالب اکثریت مسمانوں کی تھی- ریاست کی عوام بھی پاکستان کے ساتھ واضح طور پر الحاق کی حامی تھی- البتہ ریاست کا ہندو راجا فطری طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کا حامی تھا-

دوسری طرف حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور مناوادر ایک تو جغرافیائی طور پر ہندوستان میں گھری ہوئی ریاستیں تھیں- نیز عوام کی اکثریت ہندو مذہب کی پیروکار تھی- لیکن حکمران مسلمان تھے اور پاکستان سے الحاق کے متمنی تھے-

اس وقت کی پاکستانی قیادت اصولی موقف اپنانے سے بوجوہ گریزاں تھی- جس کا بعد ازاں ملک و قوم کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا- ہمیں چاہیے تھا کہ یا تو آبادی کی کثرت کو معیار بناتے- اس صورت میں ہمارا کشمیر کا مقدمہ مضبوط ہوتا- یا والیان ریاست کی رائے کو فوقیت دی جاتی- تو حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کے ہم حقدار ٹھہرتے مگر کشمیر پر ہمارا موقف کمزور پڑ جاتا- ہم نے مذکورہ بالا تمام ریاستوں کی طمع میں بظاہر کسی ایک موقف کو اختیار کرنے سے گریز کیا جس کے نتیجے میں کوئی ریاست بھی ہمارے ہاتھ نہ آ سکی-

لیاقت علی خان کے دور میں پنڈت جواہر لال نہرو نے خفیہ سفارت کاری کے ذریعے پیغام بھیجا کہ کشمیر کے بدلے میں حیدرآباد دکن ہندوستان کو دے دیا جائے- جس کے جواب میں لیاقت علی خان نے کہا کہ میں پاگل ہوں جو چند پہاڑیوں کی خاطر حیدرآباد دکن جیسی امیر ریاست دے دوں-

قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت میں بتاتے ہیں کہ چین نے 1962 میں انڈیا پر حملے سے قبل پاکستان کو اپنے ارادوں سے باخبر کر دیا تھا- تا کہ پاکستان اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کے بارے میں فیصلہ کن قدم اٹھائے-

شومئی قسمت کہ حکمران وقت ایک طالع آزما جرنیل تھا- امریکی طاغوت کے ناروا دباؤ کے سبب اسے طبل جنگ بجانے کی جرآت نہیں ہوئی- یوں ہم نے وادی کشمیر کے حصول کا ایک اور نادر موقع کم ہمتی کی نذر کر دیا- جبکہ 1965 میں ہندوستان سے معرکہ آرائی بے وقت کی راگنی ثابت ہوئی-

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مارشل لاء ہمیشہ بزدل جرنیل لگاتے ہیں- ورنہ دلیر اور بہادر جرنیل میدان جنگ میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں- اور ملک و ملت کے لیے دائمی فخر کا باعث بن جاتے ہیں-

عسکری مورخین کے مطابق1965کی جنگ میں میجر جنرل اختر حسین ملک سری نگر کے نواح تک پہنچ چکے تھے- مگر بعض عسکری حکام ان کی کامیابی سے بوجوہ خوف زدہ تھے- (اس میں فرقہ وارانہ عصبیت کی بو بھی آتی ہے)

عین وقت پر انھیں محاذ جنگ سے واپس بلایا گیا جس کے نتیجے سری نگر پر قبضے کا خواب ادھورا رہ گیا-

جمہوری حکومتوں نے اپنے ادوار میں مکالمے کو اہمیت دی- مگر ان کے پر کاٹے گئے- البتہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جموں و کشمیر کے ممکنہ حل کے کچھ منصوبے زیر غور تھے- مگر وکلاء تحریک کے سبب یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی-

پہلے ہندوستان روس کی حمایت کے سبب سلامتی کونسل کی تادیبی کاروائی سے محفوظ رہتا تھا-  جبکہ دور حاضر میں امریکی سامراج ہندوستان پر مہربان ہے- جس کے باعث ہندوستانی رویہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو چکا ہے- کنٹرول لائن پر آئے روز گولہ باری اور سرحدی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں-

جب ہم مسئلہ کشمیر کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اصولی طور مسئلہ کشمیر پر کمزور پوزیشن کے باوجود ہندوستان جمہوریت کے سبب کامران رہا- ہمیں بار بار کے مارشل لاؤں نے قعر مذلت میں ڈال دیا-اور ہم کشمیر پر کسی فیصلہ کن پیش رفت سے محروم رہے- ہم عالمی برادری کو اپنا ہمنوا بنا سکے نہ میدان جنگ میں کوئی فیصلہ کن کامیابی حاصل کر سکے- البتہ اپنی نالائقیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھے-

گزشتہ سال ھندوستان نے امریکی ایما پر اسمبلی سے بل پاس کر کے کشمیر کو قانونی طور پر ضم کر لیا- ہم رسمی بیان بازی کے علاؤہ کچھ نہیں کر سکے-

ہم نے کشمیر کے نام پر بھاری بھر کم فوج کا بوجھ قوم کے ناتواں کندھوں پر رکھا- اسلحے کے انبار لگائے- ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنایا- مفلوک الحال عوام کے ٹیکسوں سے عسکری قوت میں بے تحاشا اضافہ کیا-

سوال یہ ہے کہ ہماری کارکردگی کیا ہے؟

ہم مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے-کارگل میں رسوائی ہمارا مقدر بنی- سیاچین ہاتھ سے نکل گیا- کاغذی نقشے حسب خواہش تبدیل کرنے سے ملکوں کے جغرافیے نہیں بدلا کرتے-

اگر واقعی ہم تاریخ کے کٹہرے میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں اور ملکوں کی صف میں باعزت مقام پانا چاہتے ہیں تو

طالع آزمائی کی رسم باطلانہ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنا ہو گا-

اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کے مذموم جنون سے چھٹکارا پانا ہو گا- آئینی بندوبست کا تہہ دل سے احترام کرنا ہو گا- دنیا کی کوئی فوج بھی عوام کے تعاون کے بغیر میدان جنگ میں سرخرو نہیں ہو سکتی- اداروں کو غیر قانونی ہتھکنڈوں سے باز رہنا ہو گا- ریاست کے اندر ریاست کے تاثر کی نفی کرنی ہو گی- دنیا تبدیل ہو چکی ہے- ہمیں بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے-

ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے میں قطعاً تامل نہیں ہونا چاہیے- ملک کی بقا جمہوریت میں مضمر ہے- سب کو آئین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے-

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی استحکام اور مضبوط معیشت کے بغیر کوئی معرکہ سر نہیں کیا جا سکتا- ملکی زبوں حالی کی مایوس کن تصویر ہمیں کسی مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتی- کسی جذباتی ٹویٹ یا حسب خواہش نوشی سازی سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے-

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ثجاوز پسندی کی علت سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے- قومی یکجہتی، مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کے بغیر سرخروئی حماقت کے علاوہ کچھ نہیں-

 


Post a Comment

0 Comments