ایاصوفیہ
ایک سابق مشرقی عیسائی آرتھوڈوکس فرقہ کا گرجا
ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا۔
1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا۔
ایا
صوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم
ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لاطینی
زبان میں اسے “Sancta Sophia” اور ترک زبان میں “Ayasofya” کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں کبھی کبھار اسے سینٹ صوفیہ بھی کہا
جاتا ہے۔
منظر پستاریخی
ایا
صوفیہ، سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا
مذہبی مرکز بنا رہا ہے، تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں
میں تقسیم ہو گئی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ میں تھا
دوسری
بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے
زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپا کہلاتا تھا۔ ان دونوں سلطنتوں
میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہے۔
مغربی سلطنت جس کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسیا فرقے کی تھی۔ اور مشرقی سلطنت،
آرتھوڈوکس کلیسیا فرقے کی تھی۔ ایا صوفیہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا
کےنزدیک اسکی اہمیت عیسائیوں
ایا
صوفیہ عیسائیوں کے فرقہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا، اس چرچ کا سربراہ جو
بطریرک یا "پیٹریارک" کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا، لہذا نصف مسیحی
دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادتگاہ سمجھا کرتی تھی۔
آیا
صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم (اٹلی) کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں
زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی
تھی جو روم (اٹلی )کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام
بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا
پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ مسیحیوں
کا عقیدہ بن چکا تھا کہ یہ کلیسا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا۔ اس سے ان کی
مذہبی اور قلبی لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ اب بھی آرتھوڈوکس کلیسیا کا سربراہ اپنے نام
کے ساتھ "سربراہِ کلیسائے قسطنطنیہ"
(The Heart of the Church of the Constantinople) لکھتا
آیا ہے
مسجدصوفیہ
قسطنطنیہ
چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان
ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو
توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح
نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا
گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب
قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد
یہ مسجد "جامع ایا صوفیہ" کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے
خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنج وقتہ نماز ہوتی رہی۔۔۔
آیاصوفیہ میوزیم
ایا
صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481 سال تک تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت
گاہ رہی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کے بعد جب مصطفی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ
بنا، تو اس نے اس مسجد میں نماز بند کر کے اسے میوزیم (عجائب گھر، نمائش گاہ) بنا
دیا تھا۔
بحالی مہم
اکتیس مئی 2014ء کو ترکی کی "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو
ایا صوفیہ کو مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے
دیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطوں کو جمع کیا ہے۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے
مشیر نے بیان دیا کہ ابھی ایا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
طیب اردگان اور آیا صوفیہ
آیا
صوفیہ کا موضوع ایکبار پھر زیر بحث ہے اور طیب اردوان اس کو پھر سے مسجد میں تبدیل
کرنے لیے کچھ عرصہ سے سرگرم تھے اور دو جولائی کو اپنے ایک بیان میں مسجد بنانے کے
فیصلے کا اظہار کیا اگرچہ عالمی دنیا میں اس بارے میں کافی تشویش ہے مگر طیب
اردوان نے عالمی تشویش کے باوجود ایک دلیرانہ فیصلہ کر کے امت مسلمہ کے ایک بار
پھر دل جیت لیے ہیں اور طاغوتی طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا کہ آیا صوفیہ پر بیان
بای ترکی پر حملہ تصور کیا جائے گا ،
عدالتی
فیصلہ 17 جولائی کو آئے گا ، دعا کریں کہ ایکبار پھر اذان کی اواز گونجے ،اور
قارئین طیب اردوان کا یہ فیصلہ سن کر اقبال کا یہ شعر آنکھوں کے سامنے دھمک گیا ۔۔
"عروق مردہ مشرق
میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی"
اور
ایسا ایک بار پھر لگا کہ یقینا ترکی نادانی سے دانائی کی طرف گامزن ہے۔صلیبیوں کے
سینے پر مونگ دلنے پر ترک اداروں اور طیب اردگان کو سلام عقیدت و محبت۔
0 Comments
Hy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.