سلسلہ آؤ شاعری سیکھیں
(----سبق نمبر20 ---)
آخری سبق
از اسامہ سرسری
غزل گوئی میں گرچہ ہوں نہ قابل میں
غزل سنجوں میں ہونے آیا شامل میں
غزل کی تعریف
وہ نظم جس کے ہر شعر میں ایک مکمل مضمون ہو، غزل
میں عام طور پر عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے، اس کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع
کہلاتا ہے۔
سید
ضیاء الدین نعیم کہتے ہیں:
’’غزل بہت آسان صنف سخن ہے۔ غزل کہنے کی محض رسم پوری کرنی ہو تو
چند قافیے کاغذ پر لکھ لیجیے، مضمون وہ خود سجھادیں گے، ردیف مضمون کی بندش کا طریقہ
سمجھا دے گی۔۔۔ ۔۔۔ ( اس کے بر خلاف) اگر غزل ذمے داری سے کہی جائے، اسے ذاتی تجربے
کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس سے زیادہ صبر آزما کوئی دوسری صنف سخن نہیں۔ رسمی
غزل کہنے والوں کے لیے جن سہولتوں کا اوپر ذکر ہوا ایک ذمہ دار غزل گو شاعر کے لیے
وہی سہولتیں مشکلات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، کیوں کہ اسے تو اپنی بات اپنے لہجے میں
کہنی ہے۔‘‘
بیس مفید باتیں
اردو
محفل فورم اور فیس بک پر بندے نے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا ، غزل کے بارے میں بہت
سی باتیں معلوم ہوئیں ، ان میں سے بیس باتیں جو اس وقت یاد داشت میں محفوظ ہیں نقل
کر رہا ہوں-
اہمیت
غزل اردو شاعری کی سب سے اہم صنف ہے، اکابر شعرائے
کرام کے دواوین میں سب سے زیادہ یہی صنف ملتی ہے۔
تعداد اشعار:
غزل میں کم از کم پانچ اشعار ہونے چاہییں، نیز غزل
کے اشعار میں طاق عدد کو پسند کیا جاتا ہے۔
وزن:
غزل کے تمام مصرعوں کا عروضی وزن مشترک ہونا چاہیے،
البتہ غزل میں تمام عروضی بحروں میں کسی بھی ایک بحر کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
مطلع:
غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے
ہیں، مطلع کہلاتا ہے۔
مقطع:
غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص لاتا
ہے، مقطع کہلاتا ہے۔
قوافی:
ہر شعر کا دوسرا مصرع قافیہ بند ہونا چاہیےاور قوافی
کی باریکیاں عروض سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں، اساتذہ اور اکابر شعراء کے ہاں قواعدِ قوافی
کا مکمل لحاظ نظر آتا ہے، اس لیے ایک غزل گو کے لیے قوافی کی معلومات حاصل کرنا ناگزیر
ہے۔
اعلان:
مطلع میں شاعر اپنی غزل کی زمین کا گویا اعلان کرتا
ہے کہ اب پوری غزل اسی بحر میں ہوگی ، اسی قافیے کی پابند ہوگی ، اسی ردیف کو نبھایا
جائے گا۔
ردیف:
غزل میں ردیف کا رکھنا ضروری نہیں، لیکن اگر رکھ
لی جائے تو اسے نبھانا از حد ضروری ہوتا ہے۔
مضمون:
غزل کے ہر شعر میں ایک مکمل مضمون بیان کرنا چاہیے،
اب تک عام طور پر عشق و محبت پر غزلیں لکھی جاتی رہیں ، مگر اب دیگر موضوعات کو شعرائے
کرام اپنی غزل کی زینت بناتے ہیں۔
دولخت:
غزل کے ہر شعر کے ایک مصرع کا مفہوم دوسرے مصرع پر
موقوف ہوتا ہے، اگر ایک ہی شعر میں پہلے مصرع میں ایک مکمل بات کرکے دوسرے مصرع میں
کوئی اور تخیل مکمل طور پر پیش کیا تو یہ عیب ہے، اسے "دولخت" کہتے ہیں۔
غزل مسلسل:
پوری غزل میں ایک ہی موضوع بھی رکھا جاسکتا ہے، اسے
غزلِ مسلسل کہتے ہیں، مگر اس میں بھی غزل کے ہر شعر کا مضمون کے لحاظ سے مکمل ہونا
ضروری ہے۔
قطعہ:
اگر ایک شعر میں ایک مضمون مکمل نہ ہوسکے تو دوشعروں
میں اس مضمون کی تکمیل کی جاسکتی ہے، اس صورت میں یہ دو شعر قطعہ کہلائیں گے، جس کی
تفصیل آگے آرہی ہے۔
خیالاتی فضا:
غزل میں الگ الگ خیالات لانے کے باوجود غزل کی مجموعی
فضا ایک ہونی چاہیے، یہ نہیں کہ ایک شعر میں محبوب سے جدائی پر غم سے نڈھال ہونے کا
ذکر ہے تو دوسرے شعر میں محبوب سے ملاقات پر خوشی سے سرشاری کی کیفیت کو بیان کیا جارہا
ہے۔
لسانی فضا:
پوری غزل کی لسانی فضا بھی ایک رکھنی چاہیے، ہندی
الفاظ کے ساتھ فارسی کی مخصوص تراکیب سے غزل چوں چوں کا مربا بن جائے گی۔
ابلاغ:
شاعر کو ابلاغ پر اپنی توجہ مکمل طور پر مرکوز رکھنی
چاہیے، ابہام سے بچتے ہوئے اپنی بات قاری تک پہنچانے کے لیے شاعر کو اپنے اور قاری
کے بیچ فنی، فکری، مذہبی، لسانی، سماجی، نفسیاتی اور سیاسی فاصلوں کو ضرور سامنے رکھنا
چاہیے۔
بھرتی:
پوری غزل میں نہ کوئی لفظ بھرتی کا ہونا چاہیے ،
نہ ہی کوئی شعر۔
الفاظ کی نشست:
غزل کے ہر شعر میں الفاظ کی نشست اتنی عمدہ ہونی
چاہیے کہ کوئی اور شاعر اسی معنی کو اسی زمین میں اس سے اچھے انداز میں نہ کہہ سکے۔
زمین کا سحر:
نئے شعراء کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ
بحر ، قافیہ اور ردیف مبتدی کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں، کثرت مشق اور ریاضت کا تسلسل
ہی شاعر کو اس سحر سے نکال سکتا ہے۔
شعریت:
غزل کے ہر شعر کو "شعریت" کے مقام تک پہنچانا
چاہیے اور شعریت سے مراد وہ اوصاف ہیں جو شعر کو نثر اور کلامِ منظوم سے ممتاز کریں۔
ریاضت:
اپنی لکھی ہوئی غزل پر کچھ دنوں تک بھرپور تنقیدی
نگاہ ڈالنی چاہیے، پھر کچھ عرصے بعد اسے دوبارہ بنظرِ تنقید دیکھنا چاہیے، خود تنقیدی
کی عادت انسان کو اس کے فن میں کمال عطا کرتی ہے، اپنی غزل پر بار بار تنقیدی نگاہ
ڈالنا، اغلاط کوگرفت میں لے کر ان کی اصلاح کرنا، ایک ایک خیال کو کئی کئی بار متبادل
صورتوں میں موزوں کرنا ہی شاعری کی اصطلاح میں "ریاضت" کہلاتے ہے ، جس کے
بعد نہ صرف ہمیشہ داد دینے والی عوام ، بلکہ ماہر تنقید نگار بھی اسے کہنہ مشق شاعر
اور استاد ماننے اور کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
قطعہ:
غزل
میں ایک شعر میں ایک مضمون باندھا جاتا ہے۔ اگر ایک مضمون ایک شعر میں پورا بیان نہ
ہوسکے تو اُسے دوسرے شعر میں بھی لے جاسکتے ہیں، پھر بھی مضمون تشنہ ہو تو تیسرے شعر
میں اسے مکمل کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کے ہاں غزلوں کے اندر قطعہ بند اشعار پائے جاتے
ہیں، اس طرح کے مواقع میں اساتذہ قطعے سے پہلے "ق" لکھ دیتے ہیں، تاکہ قاری
پر یہ واضح ہوجائے کہ آئندہ آنے والے شعر میں مضمون پورا نہیں ہوگا، بلکہ اس سے اگلا
شعر اس مضمون کی تکمیل کرے گا۔ پھر بعد میں قطعے کو بذاتِ خود شعر و نظم کی ایک صنف
قرار دے دیا گیا۔
اساتذۂ فن اور ان کے مراتب
کچھ
شعراء ایسے گزرے ہیں جو بڑے شاعر بھی کہلائے ، استاد بھی مانے جاتے ہیں اور انھیں سند
کا درجہ بھی حاصل ہے، جبکہ کچھ شعرا ء شاعری میں اونچا مقام رکھنے اور استاد ہونے کے
باوجود سند تسلیم نہیں کیے گئے اور بہت سے ایسے شعرائے کرام بھی ہیں کہ شاعری میں ان
کے مقام کی رفعت تسلیم ہونے کے باوجود انھیں استاد اور سند نہیں کہا جاسکتا۔
اس
بارے میں یقیناً ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں، میں یہاں اپنے استاد محترم جناب محمد
یعقوب آسی صاحب کی پیش کردہ ترتیب لکھنے پر اکتفا کرنا چاہوں گا:
استاد
محترم فرماتے ہیں:
”یہ فہرست ہے جو اب تک تجویز کی گئی یا ان بزرگوں کو استاد شعراء
کہا گیا۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ بڑا شاعر ہونا اور بات ہے، استاد ہونا اور بات ہے اور
فنی حوالے سے سند کی حیثیت رکھنا اور بات ہے (فکری اور نظریاتی اسناد کا معاملہ یہاں
نہیں)۔اگر ان تفریقات کے ساتھ بات کی جائے تو اپنی جسارتیں پیش کیے دیتا ہوں۔ دیکھیے
لتاڑیے گا نہیں، جہاں میں نے کچھ نہیں لکھا اُس کو نفی نہ سمجھیے گا، بلکہ میری کم
علمی پر مبنی خاموشی گردانیے گا۔
مرزا
غالب: بڑا شاعر، استاد، سند
میر
تقی میر: بڑا شاعر، استاد، سند
مومن:
بڑا شاعر، استاد
میر
درد: بڑا شاعر، استاد، سند
ذوق:
بڑا شاعر، استاد، سند
آتش:
بڑا شاعر، استاد، سند
احسان
دانش: بڑا شاعر
جمیل
الدین عالی: مشہور شاعر
احمد
ندیم قاسمی: بڑا شاعر
رئیس
امرہوی: بڑا شاعر، استاد
امیر
خسرو: بڑا شاعر
ولی
دکنی: بڑا شاعر، استاد
مرزا
محمد رفیع سودا: بڑا شاعر، استاد، سند
نظیر
اکبر آبادی: بڑا شاعر
داغ
دہلوی: بڑا شاعر، استاد، سند
فیض
احمد فیض: بڑا شاعر
مجید
امجد: بڑا شاعر
ن
م راشد: بڑا شاعر
قتیل
شفائی: بڑا شاعر
صوفی
تبسم: بڑا شاعر
سلیم
کوثر: بڑا شاعر
فن
میں سند کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے۔ اگر کہیں دو یا زیادہ اسناد میں ٹکراؤ کی کیفیت
ہو تو میرا مشرب ہے کہ ان سب کو درست مانا جائے۔“
اپنے
ایک قطعے پر اس مضمون بلکہ اس سلسلے کا اختتام کرتا ہوں:
قطعہ
عشق کامل ہو نہیں سکتا رقیبوں کے بنا
خوبرو لیلیٰ و قیسِ بادیہ کافی نہیں
خوب پِتّا مارنا ہوگا غزل کے واسطے
سَرسَری تمرینِ وزن و قافیہ کافی نہیں
خاتمہ
بندے
نے ان حضرات سے فن شاعری کی بہت سی مفید باتیں سیکھی ہیں اور آیندہ بھی ان شاء اللہ
سیکھتا رہے گا ، بندہ اپنے تمام اساتذہ کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ
ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب
استادِ محترم جناب مزمل شیخ بسمل صاحب
دعاؤں کا طالب
محمد اسامہ سَرسَری
0 Comments
Hy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.