بلوچ تاریخ
،قبائلی نظام اور جدید دور
بلوچ تاریخ کو ایک زمانے میں شاعروں نے اپنی شاعری میں محفوظ کیا جو رند و لاشار ،چاکر و گہرام کے گرد محوِ گردش کرتی دکھائی دیتی ہے۔وقت کی جدت کے ساتھ ساتھ جہاں روشنی نے دیوا،لالٹین اور ٹارچ سے گزر کر الیکڑک ٹیوب لائیٹ کی شکل اختیار کر لی وہیں تاریخ بھی شاعری سے نکل کر گوگل اور کتابوں کی زینت بن گئی۔ دنیا کے تاریخ دانوں کی طرح جب بلوچ فرزندوں نے اپنی تاریخ کی چھان بین کی تو پتا چلا دنیا کی مختلف اقوام کی تاریخی کتابوں میں بلوچ کا ذکر مختلف شکلوں میں موجود ہے۔کہیں پہ البلوش تو کہیں پہ بلوچک جیسے الفاظ میں ذکرِبلوچ دکھا ئی دیتا ہے۔ کرد تاریخ دانوں کے مطابق "ڈرٹی پولیٹکس" سے پہلے بلوچ ،کرد،ترک اور فارس ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ڈاکٹر شاہ محمد مریح اور کچھ دیگر آرکیالوجسٹ آثار قدیمہ "مہرگڑھ" بولان بلوچستان کو ہزاروں سالہ بلوچ تاریخ قرار دیتے ہیں۔
نصیر دشتی اپنی کتاب
تاریخ بلوچ اور بلوچستان میں بلوچ کی تاریخ سسانید ایمپرر سے جوڑتے ہیں جس میں
سسانید ایمپرر کے کیسپین سی کے پاس "بالا شغان" نامی جگہ نقشے میں واضح
دکھائی دیتا ہے۔جو کہ موجودہ دور میں آزربائیجان اور ترکی کے بیچ میں بنتی ہے۔اس وقت بالا شغان کے رہائشیوں کو بلوچک ،بلوشک کہا
جاتا تھا جو کہ بادشاہوں کی لکھائی میں دکھتاہے۔غالباً بلوچک سے بالاشغان بنا یا
بالاشغان سے بلوچک بنا لیکن یہ بات کلیر ہے کہ
ہزاروں سال پہلے بھی لوگوں نے اپنی پہچان کی بنیاد پہ نام رکھا۔یہ وہ جگہ
ہے جہاں سے کچھ فاصلے پہ کرد آج بھی آباد ہیں۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک کرد
قبیلہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آج بھی بلوچوں کے ساتھ آباد ہے۔یہ کہنا بہت ہی
غلط ہوگا کہ کرد بلوچ ہیں یا بلوچ کرد ہیں لیکن ان میں بے حد مماثلت پائی جاتی
ہے۔بلوچ ،کرد ،فارس اور ترک کی زبانوں میں بھی بہت سے الفاظ میں مماثلت پائی جاتی
ہے ،جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ ایک زمانے میں ساتھ رہا کرتے تھے۔کچھ لوگوں
کا خیال ہے کہ بلوچ عرب ہیں اور امیر حمزہ (رضہ) کی اولاد ہیں جبکہ نصیر دشتی کے
مطابق امیر حمزہ (رضہ) بلوچوں پہ ایک بہت نرم حکمران تھے اور بلوچوں سے بہت نرم
دلی سے پیش آئے تھے جن کی وجہ سے بلوچوں کو ان سے بہت زیادہ انس و پیار تھا اور
بہت سے لوگ اسی وجہ سے بلوچوں کو ان کی اولاد مانتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مریح کہتے ہیں بلوچ ہر عقیدے ہر مذہب کی عزت اس وجہ سے کرتا ہے کیونکہ یہ کسی نہ کسی زمانے میں اس کے آبا کے مذاہب رہے ہیں۔دیکھا جائے تو" آس و آف"آگ و پانی' قبائلی۔فیصلوں کے بارے میں کہاوتیں مشہور ہیں ۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آس مطلب آگ کی رسم بلوچوں نے اس ٹائم سے اپنائی جب نمرود نے حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تھا اور انہیں کچھ نہیں ہوا ،کچھ یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ رسم اسی دور سے لی گئی کہ سچے انسان کو آگ کچھ نہیں کہتی۔آج بھی مخصوص علاقوں میں قبائلی نظام کے تحت ملزم کو انگاروں پہ چلانے کا رسم موجود ہے۔آف "پانی" کی رسم کا قصہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے خیال کیا جاتا ہے کہ پانی سچے انسان کو کچھ نہیں کہتا۔
میری
ذاتی ناقص رائے کے مطابق جب مختلف قوموں کی یلغار(ترک،منگول،فارس،عرب ،سنی وشیعہ)
کے بعد جب قبائل نے سکھ کا سانس لیا تب انہوں نے آپس میں یونین بنائی اور
قبائلی ڈیموکرٹک سٹرکچر بنایا جس میں
میڈیا سیل "بلوچ کا حال" ،سردار ،کونسل آف ایکسپرٹس جو کہ سردار کے اونپر ہوا کرتے تھے،آہوٹ یا
بایوٹ یعنی کی آزائیلم یا پناہ،فافا نو خرچ یعنی شادی بیاہ اور غم کےرسم اور دیگر
اہم عوامل کی بنیاد رکھی۔ یہ نظام آج بھی
ایرانی صوبہ بلوچستان سے لے کر پاکستان میں بسنے والے تمام بلوچیوں نے کسی نہ کسی
صورت میں اپنایا ہوا ہے جسے بلوچی میں" بلوچ معیار" کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہزاروں سالوں سے چلے نظام میں بلوچ معیار کے مطابق کس
طرح جدت لا سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر بلوچ حال احوال جو کہ میڈیا کا کردار ادا کرتی تھی آج کے نظام کے مطابق ہم اپنا "میڈیا نظام" بلوچ معیار کے مطابق کس طرح بنا سکتے ہیں کہ نہ کسی کو اشتعال آئے ،نہ عزت وغیرت کا مسئلہ بن جائے بلکہ ایک مثبت تبدیلی لا سکیں۔
مرد کی پگڑی اور عورت کا دوپٹہ جو برابری کی واضح مثال ہے جدید دور میں دنیا کے آگے کیسے اجاگر کیا جا سکتا ہے جہاں عورت برابری کے حقوق مانگ رہی ہے؟
خوشی کے موقع پر بکرا
،چاول سے لے کر کاموں میں مدد تک ،غموں میں روٹی کھانا گھر تک پہنچانے سے لے کر
تکیے کے نیچے مدد کے طور پر پیسے چھپانے تک کے رسموں کو عین "بلوچ
معیار" کے مطابق جدید دور میں کیسے لایا جا سکتا ہے ؟؟؟
تحریر
: رفیق اکبر پی ایچ ڈی سکالر نارتھ ویسٹ یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف مڈل ایسٹ
0 Comments
Hy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.