"مُحبت ایک احساس " *کومل سلطان خان*




"مُحبت ایک احساس "

*کومل سلطان خان*

مُحبت کبھی ناکام نہیں ہوتی نہ ہی کبھی دغا دیتی ہے ، جو کہتے ہیں ہم مُحبت میں ناکام ہوگئے ، محبوب نے مُحبت کرکے ہمیں دھوکہ دیا ،ہمیں بیچ راہ میں چھوڑ دیا ،ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہمیں ادھورا کرکے ہاتھ چھڑا کر دور ہوگیا، تو یہ سراسر جھوٹ ہے مُحبت  کے نام پر ۔۔کیوں کہ لفظ مُحبت کی تشریح احساس ہوتی ہے اگر احساس نہیں تو مُحبت کیسی..؟

 ہم میں اگر احساس ہوتا ہے تو گرتے ہوئے پیاسے پرندے کو جاکر اپنے ہاتھ سے پانے پلاتے ہیں، جب ہم میں احساس ہوگا تو ہی مُحبت ہوگی اور احساس کے ہوتے ہوے کوئی کسی کو بیچ صحرا میں تپتی ہوئی ریت پر نہیں چھوڑ سکتا محبوب تو کبھی بھی نہیں! اللہ نے ہمیں صاحبِ عقل بنایا ہے ہم اپنا اچھا برا سمجھ سکتے ہیں ہم مُحبت کے لیے جس انسان کا انتخاب کرتے ہیں پہلے اسے اچھی طرح جانچ تو لیں کہ یہ ہماری بے لوث مُحبت کو( ڈزرو)  بھی کرتا ہے  یا نہیں ۔ پھر جاکر ہم اس سے مُحبت کریں۔۔ پھر آپ کبھی ناکام نہیں
ہونگے.

 باقی مُحبت کے بعد ملنا نہ ملنا یہ ایک الگ (چیپٹر) ہے مجبوریاں آجاتی ہیں، حالات ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، کہیں پر باپ کی پگڑی اور خاندان کی جھوٹی شان کا کہہ کر ہمیں مجبور کر کے ملنے نہیں دیتے.اس سب کے باوجود ہم کتنے بھی دور اور مصروف کیوں نہ ہو جائیں اس محبوب سے ہمارے دھیان کا ایسا پکا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری یادوں اور دعاؤں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔

"ایسے ہی جیسے!"

ہم جب ایک کتاب کھولتے ہیں. تو ایک نٸی دنیا کا دروازہ ہوتاہے. جسے ہم پار کرتے ہیں. ایک پر فیکٹ دنیا جہاں ایک ہستی مسکراتی زندگی بستی ہے جہاں غموں دکھوں  مُحبتوں اور پریشانیوں کے بعد آخری صحفے پر لازمی ایک ہیپی انڈنگ انتظار کر رہی ہوتی ہے۔بعض دفعہ تو ایک بارکتاب کھول لی جاۓ تو ساری رات بھی گزر جاۓ معلوم نہیں ہوتا اور پھر صبع صداق کی اذانوں کے ساتھ ہم جیسے ناول ایڈکٹڈ لوگ اپنی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں بہت سی دنیاٶں کا دروازہ بند کر کے۔

جیسے مُحبت کی آخری منزل نکاح نہیں ہوتی

ویسے ہی نکاح ہو اور مُحبت بھی ہو یہ بھی لازم نہیں

تعارف
مجھ کو پانا ہے تو مجھ میں اتر کر دیکھ

یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا

میرا نام کومل سلطان خان ہے۔ میرا تعلق منڈی بہاؤالدین سے ہے۔

23دسمبر کی ٹھٹھرتی اور منجمند کر دینے والی رات کو ہمیں دنیا میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ قدر مطلق کا احسان کے اسلامی گھر آنے میں اس روح ازل کو بھیجا۔اسی حساب سے ہمارا اسٹار جدی ہے یعنی جدی پشتی ہے۔اسٹار پر یقین تو نہیں ہے لیکن ایسے پڑھنا کافی لطف دے جاتا ہے۔

اور جہاں تک بات ہے لکھنے کی

 تو لکھنے کا شوق تو شروع سے ہی تھا کچھ کرم اپنوں نے کیا کچھ اور لوگوں نے کیا کہ اس نے باقاعدگی سے ایک صورت اختیار کرلی 2017 سے لکھنے کا آغاز کیا بس صحیح انسان کی تلاش تھی جو میرے ہنر کو پہچان کر اس چیز کو عملی جامہ پہنائے. عمومی تحریریں پہلے بھی لکھی تھیں مگر کہانی کی شکل میں پہلی بار لکھنے کی کوشش کی تھی اور وہ بھی کچھ خاص لوگوں کے اصرار پر جن کی میں تہہ دل سے مشکور و ممنوں ہوں اور اپنی اس جیت کو انھیں کی نام معنون کرتی ہوں- کہ وہی اس کے اصلی حق دار ہیں-

 

Post a Comment

0 Comments