" ﭘُﺮ ﺍﺫﯾﺖ سی مُسکان"کومل سلطان خان

 

" ﭘُﺮ ﺍﺫﯾﺖ سی مُسکان"

کومل سلطان خان

ہر چیز سے ہی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے!

 زندگی میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا ہوتا۔ جسم اور روح دونوں ہی اذیت میں ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ہر کسی سے یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے سب اچھا ہے- ہمیں کسی سے کچھ شئیر نہیں کرنا ہوتا۔ کچھ بھی دل نہیں کرتا نہ کسی سے کچھ کہنے کا نہ بتانے کا نہ کسی سے مشورہ لینے کا اور نہ ہی کسی کی ہمدردی۔ ہم ہر چیز ، ہر دلاسے ہر طرح کی ہمدردی سے اکتا جاتے ہیں۔ تب دل کرتا ہے تو صرف یہ کہ زندگی جیسی بھی ہے چلتی رہے بس!

 زندگی کے باقی جتنے دن ہیں جلدی پوریں ہوں، کہانی ختم ہو جاۓ- سوچتی ہوں میرے ساتھ جو بھی لوگ جڑتے یا میں کسی کے ساتھ جڑتی وہ اندر سے بہت ٹوٹے ہوئے ہوتے اداس ہوتے یا تو ان کا کوئی اپنا ان کو چھوڑ کے جا چکا ہوتا یا وہ اپنوں سے چوٹ کھائے ہوتے لیکن یہ اپنا ٹوٹا وجود اور اداسی کسی کو دکھاتے نہیں ہیں بلکہ کوشش کرتےہیں کہ سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا سکیں لیکن پتہ نہیں کیسے مجھے ان کی اداسی اور ان کے ٹوٹے وجود کی کرچیاں نظر آ جاتی ہیں ان کی ہنسی کے پیچھے چھپا کرب مجھے میرے دل پر محسوس ہوتا ہے وہ اپنا دکھ سب سے چھپانے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی اداسی ان پر اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ٹوٹے وجود کی کرچیاں سب سے چھپانے میں ناکام ہو جاتے ہیں- تب ان کی وہ بے بسی دیکھ کے میری روح کرلا اٹھتی ہے تب مجھے لگتا کسی نے میرا دل اپنے پیروں تلے روند ڈالا ہو اور تب میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کچھ ایسا کر جاؤں کہ ان کے ہونٹوں پر اک پل کو ہی سہی لیکن مسکراہٹ کے پھول کھل جائیں- تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی وہ اپنا سارا دکھ بھول کے دل سے خوش ہو جائیں اداسی ان کے وجود میں ڈیرے نہ جما لے وہ اندھیروں میں نہ کھو جائیں ان سے وہ اندھیرے دور لے جانے کے لیے
میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتی ہوں-

پُر اذیت سی مسکان

اور پھر میری ہمت پتہ کہاں ٹوٹتی ہے جب میں اپنے دل کے قریب لوگوں سے اداسی دور بھگانے میں ناکام ہو جاتی ہوں - جب میں ان کے ٹوٹے وجود کی کرچیاں جوڑنے میں ناکام ہو جاتی ہوں- پھر میری یہ بے بسی مجھے کئی پہر رولاتی ہے تب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں ایسا کیا کروں کہ

سب کی زندگی سے دکھ اور اداسی دور کر کے

خوشیوں سے ان کی جھولی بھر دوں!

اداسی کے سارے لمحے ان کی زندگی سے دور کر دوں !

ان کی زندگی نئی امیدوں سے پُر کر دوں!

ان کی زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والا سویرا لکھ دوں!

ان کی آنکھوں میں نئے سہانے خواب بسا دوں!

ہونٹوں پر کبھی نہ ختم ہونے والی مسکراہٹ کے دیپ جلا دوں!

کامیابیوں اور خوشیوں کو ان کا نصیب بنا دوں!

بہاروں کو ان کے ان کے گھر کا پتہ دے دوں!

خزاؤں کا راستہ بھٹکا دوں اور کسی ویرانے میں چھوڑ آؤں!

جگنوؤں کی روشنی سے ان سب کی زندگی جگمگا دوں!

دنیا جہاں کی خوشی ان کے قدموں میں بچھا دوں!

لیکن بے بسی اور لاچاری پتہ کیا ہوتی ہے؟

اس کا اندازہ اس وقت مجھے اچھے سے ہو جاتاہے-

 جب میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی-

میں بس ان کو اداس دیکھتی رہتی-

 ان کے ٹوٹے وجود کو اور بکھرتا دیکھتی رہتی-

 ان کو اندھیروں میں گم ہوتا دیکھ کر اداسی کا ان کے وجود پر بسیرا دیکھ کر بھی میں کچھ نہیں کر پاتی اور تب میں دونوں ہاتھ خالی رہ جاتی ہوں-

 

اور تمھیں پتہ ہے!

اس سے زیادہ اذیت کیا ہو گی جب تم کسی اپنے کو اپنی آنکھوں سے اندھیروں میں گم ہوتا دیکھو اور تم کچھ نہ کر سکو۔

تم ہی بتاؤ اس سے بڑی اذیت کوئی ہو گی؟

کبھی کبھی زندگی میں اتنا شور محسوس ہوتا ہے۔

کہ دنیا کے کسی خاموش حصہ میں چلے جاوْ۔

پر خاموشی ناپید ہوجاتی ہے۔

اور شور کی آواز عصاب پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے ۔

کیونکہ وہ شور لوگوں کا نہیں ہوتا ۔

ہمارے خود کے اندر ہوتا ۔ 

اور ایسی حالت میں فیل ہوتا ہے ہمارے ہاتھوں میں پاوْں میں پورے جسم میں خون کی گردش کو سن پارہے ہیں ۔ اور خاموشی کو ڈھونڈتے لوگ قبر میں پہنچ جاتے ہیں-

ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ آدھے ﭘﮩﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻠﮉﻧﮓ کے چھت ﭘﺮ ﺭﻭﺯ ﺍکیلی  ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﮐﮭﮍی  ﺭہتی ﮨﻮﮞ...!ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺟﻮ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ....!ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﻮ ﻣﺎنتی ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯ آدھی ﺭﺍﺕ کو  ﺟﺐ ﺳﺐ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺳﮑﻮﺕِ ﻣﺮﮒ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﻀﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ سنتی ﮨﻮﮞ....ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﺎﮞ ﭨﭩﻮلتی ﮨﻮﮞ....

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮﺏ ﺑﮭﺮﯼ ﺁﮦ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ تو ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﻔﺮﯾﺐ ﮨﻨﺴﯽ ﺳﻤﺎﺋﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ....ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺁﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺁﻭﺍﺯ ﮈﮬﻮﻧﮉتی ﮨﻮﮞ- ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﭼﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮتا ہے.... ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ چاندنی کبھی تیز تو ﻣﺪﮬﻢ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﻮ ﻧﯿﻢ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﯽ ہوتی ہے-

اور میں ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ بیٹھی دیوار ﺳﮯ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮔﻢ ﺻﻢ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﻭبی ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﺟﮕﮧ پہنچی ﮨﻮتی...ﮐﻮﺋﯽ مجھے ﺩیکھے ﺗﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎئے...ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ میں ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﮐﺴﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ میرے ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﮑﺎﻥ ﺍﺑﮭﺮﯼ ﭘُﺮ ﺍﺫﯾﺖ سی ﻣﺴﮑﺎﻥ۔

 ہم ایک نامعلوم کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں.

سمجھ نہیں آتا کہ ہم زندگی سے ناخوش ہیں کہ حالات سے، اپنوں سے یا پھر اپنے آپ سے.....!

Post a Comment

0 Comments