شاعری احسن ریاض احسن

 

 

شاعری
احسن ریاض احسن


 

سخن ور ہوں مگر ابھی قید ہوں احسنِ

آج اگر دیتے اجازت تو گم سنا جاتے

کوچہء یار سے نکل کر بھی بھرم رکھنا تھا

ورنہ تیری راہگزر پہ جاں لٹا جاتے

گردشِ ایام ہے یا پھر قسمت میں تو نہیں

ادائے بے نیازی چھوڑ کر یہ تو بتا جاتے

قفس میں قید ہے جاں اور تیری خبر بھی نہیں

تمام عمر نہ سہی کچھ لمحے ہی نبھا جاتے

تیری تصویر کو سینے سے لگایا تو کچھ چین آیا

ورنہ وہ موت کے منظر مجھے کھا جاتے


کہاں مجھے منہ لگانے والے تھے

وہ راستے جو تیرے قدموں کے عادی تھے

چند فرد سر عام بخش دیے گئے

جو شہر بھر کے بڑے فسادی تھے


کتنا سستا شاعر ہوں میں

ایک واہ پہ دیوان بیچ دیتا ہوں


جکڑ لیا تھا اس کو اپنے ہاتھوں میں

بات بننے سے رہی الٹا بگاڑ بیٹھے ہم


 

بھلا کوئی کام ہے جو کام تم کرتے ہو

احسن دیوانے ہو دیوانی بات کرتے ہو

 


تم سے ملے نہیں عمر بیت گئی

تنہائیوں میں کٹ گئے دن بہار کے

 


آج لہجے میں اتنی تمیز کیسے؟

لوگ گھر کے موجود پاس ہیں کیا ؟

چھوڑو یہ تکلف اب تم ہی پکارو

بات آپس کی ہے غیر کاکام ہی کیا۔۔۔!


اب اس کی باتوں میں تاثیر کہاں ہوگی

وہ میرے غیر کے پہلو میں جو بیٹھی ہے

 

ان کی آغوش میں سونا غنیمت سا لگا ہم کو
پس مرگ بھلا نیند کہاں آنی تھی



آج دل کی بات بتائیں گے

گلے لگ کے خوب روئیں گے

پھر مسائل کا حل نکالیں گے

ساری الجھنیں ختم کردیں گے

باہمی محبت بڑھائیں گے

کچھ رشتے نئے بنائیں گے

میرے آنے تک تو صبر کرو

سبھی وسوسے ہم مٹائیں گے

 

آج مدتوں بعد کسی کو یاد کیا

یوں دل کے ویراں آنگن کو آباد کیا

بھولے سے تجھے یاد تو کر بیٹھاہوں

دل سے مجبور جو ٹھہرا ذہن کو برباد کیا

لکھنے کی کیا ضرورت تھی یہ کہانی تجھ کو

احسن تیرے لفظوں نے بہت برپا فساد کیا

 

بات ان تک پہنچے یہ مناسب نہ تھا

سو ہم نے لفظوں کے گلے کاٹ دیے 

کیا مل گیا ہے تجھ کو آخر بتا کے سب

دل کی جو بات تھی دل میں ہی رہنے دیتے 

 

تجھ سے بچھڑیں گے تو مر جائیں گے

یہ فقط سوچ نہیں ارادہ ہے


 

وفا شعائرجو بن رہے ہو ذرا سی بات سن لو میری

وفا کوچھوڑو نبھا کو چھوڑو اپنے لفظوں کو شغل سمجھو

وفا کروگے نبھا سکوگے یہ دعوے تیرے میں سن رہا ہوں

عشق پہ سایہ ہے کربلا کا ،ہےاچھےاچھوں نے خاک چھانی  

 

آج کل اس کے لہجے میں وہ مٹھاس نہیں

کون کہتا ہے ظالم کہ وہ اداس نہیں

رگ جاں سے ٹپکتے لہوکو جس نے دیکھا ہی نہیں

سچ تو یہ ہے کہ مدتوں سے اسے پیاس نہیں

اک زمانے سے منتظر ہیں دروبام تیرے

فقط تو ہے جسےآنے کا ہی قیاس نہیں

ان ہواؤں میں میری قربانیوں کی مہک اٹھتی ہے

مزاجِ یار سے لگتا ہے اسے احساس نہیں

میں نے صدیوں سے جسے دل میں مکیں رکھا ہے
وہ انداز شوق میں کہتے ہیں احسن راس نہیں



تعارف

احسن ریاض احسن  26 فروری  1997 کو منڈی بہاؤالدین میں پیدا ہوئے - اردو ادب سے لگاؤ شروع سے ہی تھا- باقاعدہ طور پر لکھنے کا آغاز  2017ء میں کیا- بنیادی طور پر ایک حقیقت شناس مصنف ہیں جو کہ معاشرے کو اپنے نظریے سے  دیکھنے کا قائل  ہے-

Post a Comment

0 Comments