قصیدہ میمیہ در شان امام زین العابدین علیہ السلام فرزدق تمیمی |پروفیسر اختر چیمہ- سیالکوٹ



قصیدہ میمیہ در شان امام زین العابدین علیہ السلام

(فرزدق تمیمی)

===================

پروفیسر اختر چیمہ- سیالکوٹ

ایک سال ۔۔۔۔اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک بن مروان ملک شام سے سفر کر کے حج بیت اللہ کے لیے آیا ، مصاحبین اور اعیان سلطنت بھی اس کے ہمراہ تھے ۔دوران طواف ہشام چاہتا تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دے لیکن بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوا- 

کچھ دیر بھیڑ میں دھکے کھانے کے بعد ہشام نے بوسہ دینے کا ارادہ ترک کر دیا- اور مطاف کے کنارے پر آ کر کھڑا ھو گیا-شاید اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ولی عہدی، دنیاوی کروفر اور شان وشوکت دیکھ کر لوگ اس کے سامنے سے ہٹ جائیں گے اوروہ بہ آسانی حجر اسود کا بوسہ لے لے گا ۔لیکن لوگوں نے ہشام اور اس کے لاؤ لشکر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی-

اسی دوران گلستان نبوت کے گل سرسبد ،خانوادہ ٔ اہلیبیت کے چشم وچراغ ،خاتون جنت کے لخت جگر اور امام عالی مقام حسین ابن علی کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین (علیہ السلام )صحن کعبہ میں داخل ہوئے کہ آپ کا چہرہ درخشاں ، رخسار تاباں، اور لباس مبارک معطر تھا -( کشف المعجوب اردو ترجمہ ص 106 )

 جیسے ہی لوگوں کی نظر امام زین العابدین کے چہرہ ٔ انور پر پڑی احتراماً پیچھے ہٹ گئے , آپ پورے اطمینان کے ساتھ حجر اسود کے پاس پہنچے اور اس کو بوسہ دے کر طواف کا آغاز کیا ، دوران طواف آپ جس طرف سے بھی گزرتے لوگ ادب واحترام سے ایک طرف ہو جاتے، ہشام کے ساتھ جو لوگ شام سے آئے تھے ان کے لیے یہ بڑا حیرت انگیز نظارہ تھا کیوں کہ وہ کچھ دیر پہلے بنو امیہ کے ولی عہد کی قدر ومنزلت دیکھ ہی چکے تھے۔ انہیں میں سے کسی شخص نے ہشام سے پوچھا کہ ’’ یہ کون ہے ؟‘‘ ۔ 

ہشام امام زین العابدین علیہ السلام کو خوب اچھی طرح جانتاپہچانتا تھا، مگر وہ پہلے ہی ان شامیوں کے سامنے خفت محسوس کررہا تھا اس نے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے یک گونہ اہانت آمیز لہجے میں جواب دیا کہ ’’ میں نہیں جانتا یہ کون ہے ‘‘ ۔

 داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ اس انکار کا سبب یہ تحریر فرماتے ہیں: ترجمہ: " اس انکار کا مقصد یہ تھا کہ شامی لوگ آپ کو پہچان نہ سکیں اور کہیں آپ کی پیروی اختیار نہ کر لیں جس سے اس کی امارت خطرے میں پڑ جائے " - ( کشف المحجوب ص 106 )

ابو فراس فرزدقؔ قریب ہی کھڑا تھا ، اس سے اہل بیت نبوت کی یہ اہانت برداشت نہیں ہوئی، اس کی اسلامی غیرت بیدار ہوئی اور وہ شامی کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ مَیں ان کو جانتا ہوں،مجھ سے پوچھو یہ نوجوان کون ہے ؟

Qaseeda Meemiya Dar e Shan Imam Zain Ul Abidin 

شامی نے کہا کہ بتاؤ یہ کون ہیں؟

فرزدق نے امام زین العابدین علیہ السلام کی شان میں فی البدیہہ ایک فصیح و بلیغ قصیدہ سنایا ۔اس نے کہا کہ:

ہٰذَا الَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَائُ وَطْأَتَہٗ٭

   * وَالْبَیْتُ یَعْرِفُہٗ وَالْحِلُّ وَالْحَرَمُ

یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے ، اور بیت اللہ ( یعنی کعبہ ) اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔

ہٰذَا ابْنُ خَیْرِ عِبَادِ اللّٰہِ کُلِّہِمٖ ٭

     *ہٰذَاالتَّقِیُّ النَّقِیُّ الطَّاہِرُ الْعَلَمُ

یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں ( یعنی حضور اکرم ) یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ ، صاف ستھرے اور قوم ( قریش )کے سردار ہیں ۔

اِذا رَأتْہٗ قُرَیْشٌ قَالَ قَائِلُہا ٭

 * اِلٰی مَکارِمِ ہٰذَا یَنْتَہِی الْکَرَمُ

جب ان کو قبیلہ ٔ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کہنے والا یہی کہتا ہے کہ ان کی بزرگی وجواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے ۔ (کشف المحجوب میں یہ شعر 6 نمبر پر ھے)

یَنْمِیْ اِلٰی ذِرْوَۃِ الْعِزِّ الَّذِیْ قَصُرَتْ ٭

       * عَنْ نَیْلِہٖ عَرَبُ الْاِسْلامِ وَالْعَجَمُ

 یہ عزت و بزرگی کے اس اوج کمال پر فائز ہیں جس کے حصول سے اسلام کے عرب و عجم قاصر ہیں۔( کشف المحجوب میں ساتویں نمبر پر درج ھے)

یَکَادُ یُمْسِکُہٗ عِرْفَانَ رَاحَتِہٖ٭

رُکْنُ الْحَطِیْمِ اِذَا مَاجَائَ یَسْتَلِمُ٭  

جب وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آتے ہیں توایسا لگتا ہے کہ حجر اسود ان کی خوشبو پہچان کر ان کا ہاتھ پکڑ لے گا ۔ (کشف المحجوب نمر 9 پر درج ھے)

فِیْ کَفِّہٖ خِیْزُرَانٌ رِیْحُہٗ عَبِقٗ ٭

 ٭ فِیْ کَفِّ اَرْوَعَ فِیْ عِرْنِیْنِہٖ شَمَمُ

ان کے دست مبارک میں ایک عصا ہے جو عمدہ خوشبو والا ہے ،یہ عصا ایسے عمدہ اور بہترین شخص کے ہاتھ میں ہے جو بلند ناک والا ہے یعنی عزت و شرف والا ہے(کشف المحجوب 10 نمبر پرہے)

یَغْضِیْ حَیَائً وَیُغْضیٰ مِنْ مَہَابَتِہٖ ٭ 

       ٭ فَمَا یُکَلَّمُ اِلَّا حِیْن َ یَبْتَسِمُ

وہ شرم وحیا سے نگاہیں نیچی رکھتے ہیں، اور ان کے رعب و ہیبت سے دوسروں کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں، اس لیے ان سے اسی وقت گفتگو کی جاسکتی ہے جب وہ تبسم فرمارہے ہوں ۔ ( کشف المحجوب 5 نمبر پرہے)

یَنْشَقُّ نُوْرُ الْہُدیٰ مِنْ نُوْرِ غُرَّتِہٖ ٭ 

کَالشَّمْسِ یَنْجَابُ عَنْ اِشْرَاقِہَا الظُّلَمُ ٭

ان کی روشن و منور پیشانی سے ہدایت کا نور پھوٹ رہا ہے ،جیسے تاریکیاں سورج کے نور سے چھٹ جاتی ہیں ۔ (کشف المحجوب 4نمبرہے)

مَنْ جَدُّہٗ دَانَ فَضْلُ الْاَنْبِیَائِ لَہٗ ٭

        ٭ وَفَضْلُ اُمَّتِہٖ دَانَتْ لَہٗ الْاُمَمُ

یہ وہ ذات گرامی ہے کہ جن کے جد محترم ( حضور اکرم )کے سامنے تمام انبیائے کرام کی فضیلتیں سر نگوں ہیں( یعنی وہ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں)اورتمام امتوں کی بزرگی اور فضیلت ان کی امت کے آگے سر خم کیے ہوئے ہے۔( یعنی ان کی امت تمام امتوں سے افضل ہے مرآۃ الجنان اور وفیات الاعیان دونوں میں یہ شعر نہیں ہے) 

( کشف المحجوب شعر نمبر8 ہے)

مُنْشَقَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ نَبْعَتُہٗ ٭ 

  ٭ طَابَتْ عَنَاصِرُہٗ وَالْخِیْمُ وَالشِّیَمُ

آپ کی اصل اور نمود رسول اکرم سے ہے، آپ کے عناصر اور طبیعت وعادت سب عمدہ اور پاکیزہ ہیں۔

)المحجوب شعر 12 (کشف

ہٰذَا ابْنُ فَاطِمَۃٍ اِنْ کُنْتَ جَاہِلَہٗ ٭ 

      ٭ بِجَدَّہٖ اَنْبِیائُ اللّٰہِ قَدْ خُتِمُوا

یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا ) کے لخت جگر ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا ( تو سن لے کہ ) ان کے محترم نانا ( حضور اکرم ) پر انبیائے کرام کے سلسلے کا اختتام ہوا ہے- کشف المحجوب شعر 

کشف المحجوب شعر نمبر 3))

اَللّٰہُ شَرَّفَہٗ قِدْماً وَعَظَّمَہٗ ٭ 

جَرَیٰ بِذاکَ لَہٗ فِیْ لَوْحِہٖ الْقَلَمُ ٭

اللہ تعالیٰ نے قدیم زمانے سے ان کو شرف وعظمت عطا فرمائی، اوران کے لیے اسی شرف وعظمت کے واسطے اس کی لوح محفوظ میں قلم چل چکا ہے ۔( یعنی شرف وعظمت ان کا مقدر کی جا چکی ہے) ۔

کشف المحجوب میں یہ شعر 21 ویں نمبر پر یوں درج ھے:

"اللہ فضلہ کرما و شرفہ ۔۔ جری بذلک لہ فی اللوح والقلم

اَللّیْثُ اَہْوَنُ مِنْہٗ حِیْنَ تُغْضِبُہٗ ٭

وَالْمَوْتُ اَیْسَرُ مِنْہٗ حِیْنَ یُہْتَضَمُ٭

اگر تم ان کو غصہ دلا دو تو پھر( ان کے غصے کے مقابلے ) شیر کا غصہ بھی ہلکا ہے ،اور اگر ان پر ظلم وستم کردیا جائے تو( اس ظلم وستم کی سزا اور بدلے کے مقابلے میں ) موت بھی آسان ہے ۔

دیوان فرزدق،البدایہ والنہایہ ،مرآۃ الجنان اور وفیات الاعیان اور کشف المحجوب میں یہ شعر نہیں ہے ۔ لیکن معروف ھے کہ اس قصیدے کا ھے-

فَلَیْسَ قَوْلُکَ مَنْ ہٰذَا بِضَائِرِہٖ ٭ 

اَلْعُرْبُ تَعْرِفُ مَنْ اَنْکَرْتَ وَالْعَجَمُ ٭

تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ،جس ذات گرامی ( کو پہچاننے) سے توانکار کر رہا ہے ان کو تو عرب و عجم سب جانتے ہیں۔

(کشف المحجوب میں 13 نمبر پر درج ھے) 

کِلْتَا یَدَیْہٖ غِیَاثٌ عَمَّ نَفْعُہُمَا ٭

    ٭ تُسْتَوْکِفَانِ وَلَا یَعْرُوْہُمَا عَدَمُ

ان کے دونوں ہاتھ ایسے فریاد رس اور بخشنے والے ہیں کہ ان کا نفع عام ہے ،ان ہاتھوں سے مسلسل خیرات تقسیم کی جاتی ہے ( اس کے باوجودبھی)اس میں کوئی کمی نہیں آتی ۔

( کشف المحجوب پر نمبر14 )

سَہْلُ الْخَلِیْقَۃِ لَا تُخْشیٰ بَوَادِرُہٗ ٭ 

 ٭ یَزِیْنُہٗ اثْنَانِ حُسْنُ الْخَلْقِ وَالشِّیَمُ

وہ نرم خو ہیں ان کی تیزی( جلد غصہ ہونے ) سے خوف نہیں کیا جاتا، وہ دونوں خوبیوں سے آراستہ ہیں یعنی حسن صورت اور(عمدہ )عادات۔

کشف المحجوب میں پہلا مصرع : سھل الخلیقة لا یخفٰی بوادرہ) )

حَمَّالُ اَثْقَالِ اَقْوَامٍ اِذَا فُدِحُوْا ٭ 

    ٭ حُلْوُ الشَّمَائِلِ تَحْلُوْا عِنْدَہٗ نِعَمُ

جب لوگ ( قرض سے ) گراں بار ہوجائیں تو وہ لوگوں کا بار اٹھانے والے ہیں ،ایسے شیریں خصلت ہیں کہ ان کا احسان بھی شیریں ہوجاتا ہے ۔

(کشف المحجوب میں یہ شعر نہیں)

مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلّا فِیْ تَشَہُّدِہٖ ٭

       ٭ لَوْلَا التَّشَہُّدُ کَانَتْ لَائُ ہٗ نَعَمُ

آ پ نے تشہد میں’’ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘کہنے کے علاوہ کبھی’’ لا ‘‘ ( نہیں ) نہیں فرمایا،اگر تشہد نہ ہوتا تو آپ کا یہ لا( نہیں ) بھی’’ نعم ‘‘ ( ہاں ) ہوتا۔یعنی کسی مانگنے والے کے جواب میں آپ کی زبان سے کبھی’’ نہیں‘‘ نہ نکلا ۔

( کشف المحجوب میں یہ شعر درج نہیں)

لَا یُخْلِفُ الْوَعْدَ مَیْمُوْنٌ نَقِیْبَتُہٗ ٭

    ٭ رَحْبُ الْفِنَا ئِ اَرِیْبٌ حِیْنَ یَعْتَزِمُ

 کبھی وعدہ خلافی نہ کرنے والے ،مبارک نفس والے، وسیع صحن والے، اور جب ٹھان لیتے ہیں تو کر گذرنے والے ہیں۔

( یہ شعر دیوان میں اور کشف المحجوب میں نہیں ہے ۔ لیکن دیگر کتب میں موجود ھے)

عَمَّ الْبَرِیّۃَ بِالْاِحْسَانِ فَانْقَشَعَتْ٭

      ٭ عَنْہَا الْعِنَایَۃُ وَالْاِمْلَاقُ وَالْعَدَمُ

 ان کا جود و کرم تمام خلائق کے لیے عام ہے ،اس لیے اس

(مخلوق)کے رنج وغم ، مفلسی اور تنگ دستی دور ہوگئی ۔

( یہ شعر کشف المحجوب میں پندرہ نمبر پر درج ھے اور آخری لفظ ۔۔۔۔۔والظلم ھے ۔۔۔۔۔۔اس طرح معنی ہو گا ظلم و زیادتی آپ کی وجہ سے پراگندہ ہو کر رہ گئے)

مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّہُمْ دِیْنٌ وَبُغْضُہُمُ ٭

       ٭ کُفْرٌ وَقُرْبُہُمُ مَنْجَیً وَمُعْتَصَمُ

 وہ تو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کی محبت عین ایمان ہے ، اور ان سے بغض کفر ہے ، اور ان کا قرب جائے پناہ اورسہارا ہے ۔

( یہ شعر کشف المحجوب میں 18 نمبر پر درج ھے)

اِنْ عُدَّ اَہْلُ الُّتقیٰ کَانُوا اَئِمَّتَہُمْ ٭

  ٭ اَوْ قِیْلَ مَنْ خَیْرُ اَہْلِ الْاَرْضِ قِیْلَ ہُمُ

 یہ تو ان لوگوں میں سے ہیں کہ اگر پرہیز گاروں کو شمار کیا جائے تو یہ حضرات پرہیزگاروں کے امام ہوں گے ،یا اگر یہ پوچھا جائے کہ زمین میں سب سے بہتر کون لوگ ہیں؟ تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہی ( اہل بیت ) ہیں۔

( یہ شعر کشف المحجوب میں 19 نمبر پر ھے)

لَا یَسْتَطِیْعُ جَوَادٌ بُعْدَ غَایَتِہِمْ ٭

       ٭ وَلَا یُدَانِیْہِمُ قوم و ان کرم 

 کوئی جواں مرد اور سخی ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا ،اور نہ کوئی قوم ان کے قریب پہنچ سکتی ہے اگرچہ کتنی ہی بزرگی والی کیوں نہ ہو۔

( کشف المحجوب شعر نمبر 16)

ہُمُ الْغُیُوْثُ اِذَا مَا اَزْمَۃٌ اَزَمَتْ ٭

 ٭ وَالْاُسْدُ اُسْدُالثَّرَیٰ وَالْبَاْسُ مُحْتَدِمُ

جب سخت قحط لوگوں کو گھیر لے تو یہ حضرات ابر باراں ہیں ، اور جب معرکۂ کارزار گرم ہو تو یہ حضرات‘‘ ثریٰ‘‘ کے شیروں کی طرح شیر ہیں۔

 ( کشف المحجوب نمبر17 )

(عرب میں کوہ سلمیٰ کے ایک علاقے کا نام ثریٰ ہے جہاں شیر بکثرت ہوتے تھے)

لاَ یَنْقُصُ الْعُسْرُ بَسْطاً مِنْ اَکُفِّہِمٖ ٭

      ٭ سِیَّانِ ذٰلِکَ اِنْ اَثَرُوْا وَاِنْ عَدِمُوْا

ترجمہ: تنگ دستی اور سختی ان کی جود وسخا کو کم نہیں کرتی ،مال کا ہونا یا نہ ہونا ان کے لیے برابر ہے (یعنی ان کے پاس مال ہو یا نہ ہو اس سے ان کے سخاوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا)

یہ شعر مرآۃ الجنان میں نہیں ( کشف المحجوب میں نمبر 20 پر موجود ھے لیکن دونوں مصرعے مقدم موخر جو صحیح تر ھے ورنہ یہ قصیدہ میمیہ نہیں رہتا ) لہذا دوسرے مصرع کو پہلے پڑھا جائے-

مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِکْرِ اللّٰہِ ذِکْرُہُمُ ٭

٭ فِیْ کُلِّ بَدْئٍ وَمَخْتُوْمٌ بِہٖ الْکَلِمُ

 اللہ کے ذکر کے بعد انہی کا ذکر سب سے مقدم ہے ،اسی کے ذریعے آغاز ہوتا ہے اور اسی پر گفتگو ختم ہوتی ہے ۔

( کشف المحجوب پر نمبر 22 )

یَأ بَیٰ لَہُمْ اَن یَّحُلَّ الذَّمُّ سَاحَتَہُمْ ٭

        ٭ خِیْمٌ کَرِیْمٌ وَاَیْدِی بِالنَّدَیٰ ہُضُمُ

 کوئی برائی ان کے دربار تک نہیں آسکتی،یہ نیک خو ہیں، ان کے ہاتھ عطا کرنے والے ہیں۔یہ شعر دیوان میں نہیں ہے۔ ( کشف المحجوب میں یہ شعر درج نہیں باقی کتب میں ھے)

اَیُّ الْخَلَائِقِ لَیْسَتْ فِیْ رِقَابِہِمٖ ٭

       ٭ لِاَوَّلِیِّۃِ ہٰذَا اَوْ لَہٗ نِعَمُ

 مخلوق میں وہ کون ہے جو ان کی غلامی میں نہیں ہے ،ان کی اولیت وتقدم کی وجہ سے یا پھر ان کے احسانات کی وجہ سے۔یہ شعر مرآۃ الجنان میں نہیں ہے۔

 (کشف المحجوب میں یہ شعر نمبر 23 پر درج ھے لیکن پہلا لفظ" ای القبائل " ھے اس طرح مخلوق کی جگہ قبیلوں ترجمہ ھو گا)

مَنْ یَعْرِفِ اللّٰہَ یَعْرِفْ اَوَّلِیَّۃَ ذَا ٭

     ٭ وَالدِّیْنَ مِنْ بَیْتِ ہٰذَا نَالَہٗ الْاُمَمُ

 جو شخص اللہ کو جانتا ہے وہ ان کی اولیت اور تقدیم کو بھی جانتا ہے ، اور تمام لوگوں کو دین ان کے گھر سے ہی ملا ہے ۔

(کشف المحجوب میں قصیدے کا آخری اور چوبیسواں شعر ھے) 

یُسْتَدْفَعُ الشَّرُّ وَالْبَلْوَی بِحُبِّہِم ٭

    ٭  وَیَسْتَزِیْدُ بِہٖ الاحْسَانُ وَالْکَرَمُ

ان کی محبت کے وسیلے سے مصیبتیں اور آفتیں دور ہوتی ہیں، اور ان کے ذریعے احسان و کرم میں اضافہ ہوتا ہے ۔

(یہ شعر دیوان اور البدایہ والنہایہ سے اضافہ کیا گیاھے-کشف المحجوب ، وفیات الاعیان اور مرآۃ الجنان وغیرہ میں نہیں ہے)

یہ اشعار سن کر ہشام بہت برا فروختہ ہوا اور بعد میں فرزدق کو عسفان ( مکہ مکرمہ اور مدینہ کے درمیان جگہ کا نام ) میں قید کر دیا- جب امام علیہ السلام کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو فرزدق کی جرات ایمانی کی تحسین فرمائی اور دل جوئی کے لئے بارہ ہزار درہم و دینار اس پیغام کے ساتھ بھجوائے کہ ہمیں معذور سمجھنا ، اگر اس سے زیادہ ھوتے تو اس میں دریغ نہ کرتے-

(کشف المحجوب ص 110)

        جب رقم فرزدق کے پاس پہنچی تو اس نے قاصد سے بصد ادب گزارش کی کہ میں نے دنیا دار بادشاہوں اور امیروں کی شان میں بکثرت قصائد کہے ہیں اگر ان کے کفارے کے طور پر کچھ اشعار فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں عرض کر دیئے تو کیا کمال کیا؟ میں نے یہ قصیدہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کہا ہے اور اللہ سے ہی اس کا اجر چاہتا ہوں اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہل بیت ؑ سے محبت و دوستی کا طلبگار ھوں -جب یہ پیغام امامؑ کو پہنچا تو آپؑ نے فرمایا:

 " اے ابو فراس ! اگر تم ہم سے محبت کرتے ھو تو جو ھم نے بھیجا قبول کر لو کیونکہ ہم نے رضائے الہی کے لئے اپنی مِلک سے نکال کر تمہاری مِلک میں دے دیا ھے - فرزدق نے وہ عطیہ لے کر احسان مندی کا اظہار کیا اور شان اقدس میں مزید اشعار کہے-

           

 


Post a Comment

0 Comments