فیمنزم
کیا ہے؟اور کیوں ہے؟
تحریر:
منزہ گل، سرگودھا
مثلاً اسلام میں قرآن و حدیث، مسیحیت میں بائبل، ہندو مذہب میں ویدیں اور گیتا،
سوشلزم میں مارکس اور اینگلز کی کتب، لبرل ازم میں تھامس ہابز سے جان لاک، روسو اور
مل تک جیسے مفکرین کی تحریریں یا بدنامِ زمانہ ''نظریہ پاکستان "میں اقبال،
جناح اور لیاقت کی تقاریر اور تحاریر یا قراردادِ مقاصد اور آئینِ پاکستان، اسلام
ازم میں مودودی یا حسن البنا کی تحاریر، ہندوتوا میں گوالکر اور ساورکر کی تحریریں
وغیرہ اتھارٹی مانی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ اصطلاحوں کا ایسا کوئی دستاویزی ریفرنس
پوائنٹ نہیں ہوتا۔ مثلاً سیکولرازم۔ اس لیے ان اصطلاحات کا بنیادی مفہوم ہی مباحث
کا موضوع رہتا ہے۔ تاہم سیکولرازم کے بارےمیں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سیکولر ریاستوں یا
معاشروں مثلاً چین یا فرانس کو دیکھ کر ہم اس کا مفہوم طے کرسکتے ہیں۔
فیمنزم ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق مرد اور
عورت دونوں برابر انسانی حقوق، بنیادی سہولیات، اقتصادی اور سماجی حقوق کے مستحق
ہیں۔ ویسے تو فیمنزم کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر صحیح معنوں میں یہ تحریک مارکس ازم
کے ساتھ شروع ہوئی اور کالونیل ازم کے خاتمہ پر اس تحریک نے بہت زور پکڑا۔ فیمنزم
کی شروعات کا اہم ترین موقع وہ تھا جب 1911ء میں برٹش خواتین کے احتجاج پر انہیں
ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ فیمنزم دراصل مغربی خواتین کی اپنے حقوق کے لیے کی جانے
والی جدوجہد کی ہی ایک شکل ہے۔ 1995ء
میں بیجنگ ویمن کانفرنس میں
ہیلری کلنٹن نے اپنی مشہور زمانہ تقریر میں کہا تھا
” عورتوں کے حقوق ہیومن رائٹس ہیں ” اور اس نے
ایسی این جی اوز کو عالمی توجہ فراہم کی تھی اور اسی نے فیمنسٹ ایکٹوازم کو فرنٹ
فٹ پہ لاکھڑا کیا تھا۔ مغربی خواتین نے اپنے حقوق کی جدوجہد کی جنگ لڑی جو تاحال
جاری ہے مغربی خواتین نے پہلے خود کو مرد کے تسلط سے نکالا ملازمت، بزنس، سفر کرنا
یہ سب شروع کیا اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں جس کے باعث انہیں حقوق کی جدوجہد میں
بہت آسانیاں رہیں۔
پاکستان میں بھی فیمنزم کا نام سنا جانے لگا ہے پچھلے کچھ سالوں سے اس میں بہت تیزی بھی آئی ہے۔ فیمنزم میں پاکستان کی خواتین کا کردار ہر گز مغربی خواتین والا نہیں ہے یہاں خواتین کو حقوق مغربی ممالک والے چاھئیں مگر ذمہ داریوں کے لحاظ سے پاکستان کی خواتین اس ڈگر پر چلنے کی روادار نہیں ہیں جس پر مغربی خواتین چلی ہیں۔ کسی بھی قسم کے استحصال میں مکمل معاشرہ زمہ دار ہوتا ہے معاشرہ مرد و زن دونوں سے مل کر بنتا ہے گو کہ خواتین کے استحصال میں مردوں کا حصہ زیادہ گردانا جاتا ہے اور یہ صحیح بھی ہے مگر خواتین اس معاشرہ کا حصہ ہیں۔
فیمنزم کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ
انسانیت کی تمام تر معلوم تاریخ میں مرد زور زبردستی عورت کا استحصال کرتا آیا ہے،
عورت کو کمتر جنس سمجھتا رہا ہے، اسے معاشرے میں وہ کردار ادا کرنے سے روکتا رہا
ہے جس کی وہ اہل ہے، اسے تولید کے عمل اور مولود کی نگھداشت تک محدود کرتا رہا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں مرد نے عورت کا یہ "استحصال" کسی سوچی سمجھی منظم
سازش کے تحت کیا۔اگر ایسا ہے تو اس عالمگیر سازش کا ہر دور، ہر ریاست و سلطنت، ہر
معاشرے میں کوئی تاریخی ثبوت لازما موجود ہونا چاہیے۔
تمام نہیں تو چند معاشروں سے تو اس عظیم سازش کا
بیان ضرور ملنا چاہیے۔ لیکن ایسی کوئی بات حتمی طور پر ملنا تو دور، تاریخ میں اس
موضوع کا ذکر بطور 'استحصال' ہی کہیں نہیں ملتا، فیمنزم بطور فکر تاریخ میں کہیں
موجود ہی نہیں!!!
یہاں تک کہ وہ سلطنتیں جن پر عورت کی حکمرانی
قائم ہوئی، ان کے تاریخی دستاویز بھی اس عنوان سے مکمل خالی ہیں۔پھر یہاں یہ بھی
قابل ذکر ہے کہ وہ معاشرے جن کے درمیان کبھی کوئی روابط قائم نہیں ہوئے ان میں بھی
مرد اور عورت اپنے منفرد سماجی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں لہذا اس کا قطعی کوئی
امکان نہیں کہ یہ کسی غالب تہذیب کے مغلوب معاشروں پر اثر کا نتیجہ ہو۔یہ
'استحصال' مرد نے سوچ سمجھ کے تو نہیں کیا لیکن یہ غیرارادی مردانہ جبر کے باعث
ہوا۔اگر ایسا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ عورت تمام تاریخ میں
غیرمحفوظ، ناخوش اور اس استحصال کے خلاف متحرک نظر آتی جس کے ناگزیر نتیجے میں
خاندانی اور سماجی نظام متاثر ہوتا مگر نہ صرف یہ کہ اس امکان کی حمایت میں کوئی
تاریخی ثبوت موجود نہیں بلکہ پوری تاریخ خود اس امکان کی مخالفت پر دلیل ہے۔
فیمنزم اور نیولبرلازم کے بعد عورت جتنی
غیرمحفوظ، ڈپریس اور متحرک ہے اتنی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ تاریخ پر نظر ڈالیں
تو قدیم عورت معاشرے میں اپنے کردار سے مطمئن نظر آتی ہے اور اس کے اطمینان کے
نتیجے میں ایک ایسے خاندانی نظام کا وجود نظر آتا ہے جو دورحاظر کے خاندانی مسائل
سے پاک اور بےانتہا مضبوط ہے۔ درج بالا امکانات کے رد سے یہ بات بلکل واضح ہو جاتی
ہے کہ فیمنزم کی عمارت بلکل کھوکھلے مفروضے پر اپنے اصول کو قائم کرتی ہے۔
جن حقائق کو فیمنزم عورت کا استحصال سمجھتی ہے
وہ استحصال ہے ہی نہیں بلکہ انسانی اجتماعیت اور مردعورت کے باہمی ازدواجی و سماجی
ربط کا فطری نتیجہ ہے جس پر عورت ہر دور میں راضی اور مطمئن رہی ہے اور اگر آج کی
عورت مطمئن نہیں ہے تو اس کی وجوہات خارجی ہیں، فطری نہیں لہذا فیمنزم کی تشہیر
کرنے کی بجائے ان خارجی مسائل کا سدباب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ موجودہ دور
میں عورت کے استحصال کی اصل وجوہات ہیں۔
اسلام اور فیمینزم اگر بات کی جائے عورت کی تو
جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
تو کچھ غلط نہیں کہا یعنی عورت ایک ایسی ذات ہے
جس کے بغیر یہ معاشرہ نہیں چل سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ساری رعنائی اور
دلفریبی عورت کے وجود سے ہے۔ خداوند کریم نے بھی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو اعلی
مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ اسلام کو بھی وسیع پیمانے سے دیکھا جائے تو اسلام نے بھی
عورت کو اپنے حقوق کو پورا کرنے اور ان کو حاصل کرنے کی پوری چھوٹ دی ہے۔ اسلام نے
عورتوں کی تعلیم پر بھی زور دیا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں حصہ لینے کی تاکید بھی
کی ہے۔
جس کی مثال حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رضہ) کی ذات مبارکہ سے
لی جاتی ہے کہ وہ ایک نامور مشہور تاجرہ تھی یعنی اسلام عورتوں پر کوئی پابندی
نہیں لگاتا وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں مگر اسلام کی ان عظیم ہستیوں اور عورتوں کو
سامنے رکھتے ہوئے جنہوں نے اپنی عزتوں، عفتوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہر کام کو
سرانجام دیا۔اگر عورت کے لفظی مطلب کی بات کی جائے تو اس کے معنی ہے ”چھپی ہوئی“۔
چونکہ انسانی تمدن کی عمارت بنانے میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی ایک ایسا ستون ہے
کہ جس کے تعاون کے بغیر یہ معاشرہ اور عمارت کا کھڑا ہونا ناممکن ہے تو عورت کو
چاہیے کہ وہ خود کو چھپا کر ڈھک کر دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے باکردار ہو تو پردے
کا اہتمام کرتے ہوئے دنیا کے ہر شعبے میں کام کریں اور اپنے فرائض سرانجام دیں جس
کی حدود کا تعین اسلام نے کیا ہے۔
چونکہ
دنیا ایک فطری تقسیم کار ہے اور مرد عورت کی فطرت کے عین مطابق ہے
اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جیسے کہ عورت کے ذمے اندرون خانہ کی ذمہ داریاں ہیں اور مردہ بیرون خانہ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فطری لحاظ سے دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ علیحدہ ہیں اور اگر عورت کو ہر قسم کے حقوق مہیا کیے جا رہے ہیں جس کا تعین اسلام نے کیا ہے تو کیوں فیمینزم کے تصور نے آج عورت کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ عورت کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ لیکن آج کل منفی فیمینزم کا تصور اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہونے والی عورت مارچ پر ایسے ایسے سلوگنز دیکھنے کو ملے جن کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے اسلامی عورت کا وجود کہیں دور سا رہ گیا ہے۔ کیا اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم خود موقع دیں مرد کی ذات کو کہ وہ ہم پر آوازیں کسیں۔صرف ایک ایسا حق پانے کے لیے جس کو آج کل ”میرا جسم میری مرضی“ کا نام دیا گیا ہے کیا اس تصور نے اس قدر عورت کو جاھل بنا دیا ہے؟ خدارا عورت چھپی ہوئی چیز کا نام ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ دین عورت کو کسی بھی چیز سے نہیں روکتا بلکہ ہر بات میں عورت کی رائے اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے مگر مثبت اور نفیس رویہ اختیار کرتے ہوئے۔
اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جیسے کہ عورت کے ذمے اندرون خانہ کی ذمہ داریاں ہیں اور مردہ بیرون خانہ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فطری لحاظ سے دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ علیحدہ ہیں اور اگر عورت کو ہر قسم کے حقوق مہیا کیے جا رہے ہیں جس کا تعین اسلام نے کیا ہے تو کیوں فیمینزم کے تصور نے آج عورت کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ عورت کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ لیکن آج کل منفی فیمینزم کا تصور اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہونے والی عورت مارچ پر ایسے ایسے سلوگنز دیکھنے کو ملے جن کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے اسلامی عورت کا وجود کہیں دور سا رہ گیا ہے۔ کیا اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم خود موقع دیں مرد کی ذات کو کہ وہ ہم پر آوازیں کسیں۔صرف ایک ایسا حق پانے کے لیے جس کو آج کل ”میرا جسم میری مرضی“ کا نام دیا گیا ہے کیا اس تصور نے اس قدر عورت کو جاھل بنا دیا ہے؟ خدارا عورت چھپی ہوئی چیز کا نام ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ دین عورت کو کسی بھی چیز سے نہیں روکتا بلکہ ہر بات میں عورت کی رائے اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے مگر مثبت اور نفیس رویہ اختیار کرتے ہوئے۔
میں
فیمیزم کے خلاف نہیں یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے اگر اس کو اسلام کے میزان میں
تولتے ہوئے بروئے کار لایا جائے اور جس طرح اسلام ایک باکردار اور باپردہ عورت پیش
کرتا ہے اس انداز سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔ ہر ایک کا نقطہ نظر مختلف ہے اور
ہونا بھی چاہیے، عورت جس کے ذمے بہت سے کردار ہیں بیٹی، بہن، ماں، بیوی احسن طریقے
سے ان کو نبھاتے ہوے معاشرے میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں کام کریں جو کم ازکم
اسلام پر مبنی ہو جو کہ اسلامی عورت کے لئے ضروری ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ بھی
اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر اسلام کے عین مطابق عورتوں کو ان کا حق دیں تو سوال ہی
نہیں پیدا ہوتا کہ وہ اس طرح سڑکوں پر نکلیں کیونکہ ہر چیز کے دو پہلو ہیں پھر بھی
ان کے مطالبات نہ پورے کیے جائیں تو خود کو منوانے کے لئے اگر فیمینزم کا سہارا
لینے کی ضرورت پڑے تو کوئی حرج نہیں بس اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں
تاکہ مردوں کو بولنے کا موقع بھی نہ ملے اور عورتوں کے کردار پر کوئی آنچ بھی نہ
آئے اور اس طرح مثبت فیمینزم کی مہم چلائیں تاکہ اسلام میں جو تصویر پیش کی گئی ہے
عورت کی وہ بھی برقرار رہے۔
6 Comments
MashaAllah nice thoughts
ReplyDeleteThanks for appreciation
DeleteFollow this blog for new writing and share it with others
ReplyDeleteThanks for appreciation
ReplyDeletefollow our blog
MashaAllah ❤️ BHT achi soch
ReplyDeleteThanks for compliment
DeleteHy!
Thanks for your replying and showing interest in my blog.