"اِک اور ورق ختم ہوا" تحریرکومل سلطان خان

  



"اِک اور ورق ختم ہوا"

کومل سلطان خان



آج 31 دسمبر ہے یہ سال اپنے آخری دن میں ہے-

 بس ایک ھندسہ بدلے گا.

وہی صبحیں وہی شامیں ۔۔۔۔۔۔!

کبھی کسی آئس بلاک سے قطرہ قطرہ برف پگھلتے دیکھی ہے؟

کبھی خزاں میں رفتہ رفتہ درختوں کے پتے جھڑتے دیکھے ہیں؟

کبھی پانی کی غیرموجودگی میں پیڑ سوکھتا دیکھا ہے؟

کبھی پھول مُرجھا کر ٹہنی کی آغوش سے زمین کی جانب جُھکتا دیکھا ہے؟

یہی تو"وقت" کی کارستانی ہے،

یہ وقت ہی تو ہے جو یہ سب کر گزرتا ہے۔

ہاں!

کرتا ہے اور گزر جاتا ہے۔

زندگی کے شجر پر وقت کی کلہاڑی کے کاری ضرب بھیانک آواز کے ساتھ لگتے جارہے ہیں،

اور ہر لحظہ کمزور پڑتا شجر اب گِرا کہ تب گِرا !

کتنے نفوس تھے جو دنیا میں آۓ،

کتنے بچپن سے جوانی کو پہنچ گۓ،

کتنے جوانی سے بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔

کتنے مہلت عمل کو پورا کر کے دنیا سے گزر گۓ۔

جو لمحہ میسر تھا،وہ گزر گیا۔

جو فُرصتیں ساتھ تھیں وہ چھوٹ گئیں۔

وقت کی جو چاپ قریب آرہی تھی وہ اب کوسوں دور جاچکی۔

جو پل زندگی میں آیا چُھو کر گزر گیا۔

خالق نے تحریرِ زندگی کے لیے جو وقت دیا تھا اس کا ایک حصہ ختم ہوا۔

کتابِ زندگی کا "اک اور ورق ختم ہوا"۔

مگر اہم تو یہ ہے کہ اب

پچھلا ورق بدلا نہیں جا سکے گا۔

جو لکھنا ہے ، جو ردو بدل بھی کرنا ہے اگلے ورق پہ کرنا ہوگا۔

ورنہ ختم تو وہ بھی ہو جاۓ گا.

سب برا بھلا ساتھ لیے۔

خیر کی ہری بھری داستاں یا شر کی سیاہ کہانی۔

یہ انساں کی مرضی ہے۔

پھر کبھی ایک لمحہ لگے گا اور کاتبِ تقدیر نے جتنی چابی اس کھلونے میں بھری ہے ، سب ختم ہوجاۓ گی۔

کاتبِ تقدیر کے قلم کی نوک پر "بس" لکھا ہوگا۔

اُدھر سیاہی صفحے پہ پھیلے گی-

اِدھر نبض تھمے گی،

اور سانس کی دوڑ ٹوٹ جاۓ گی۔

قلم خشک، ورق تمام، زندگی ختم شُد!

"اک اور ورق ختم ہوا" کی ہر داستان یہیں ختم ہوجاتی ہے۔

والعصر والعصر!

گزشتہ سال کے زخموں کو بھولنے کے لیے

آئندہ سال پہ نظریں لگائے بیٹھے ہیں-🔥


Post a Comment

0 Comments