وہ لڑکی لال قلندر تھی! تحریر حسنین شیخ

 


وہ لڑکی لال قلندر تھی!

تحریر حسنین شیخ

27 دسمبر 2007ء کی ایک سرد شام  میں اپنے نانا جان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک خبر آئی کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی ہے. ہمارے گھر اسی وقت ایک ہلچل سی مچ گئی، میری عمر اس وقت آٹھ برس تھی.

 اور میں سیاست کے دربارسے کچھ زیادہ آشنا نہیں تھا مگر بے نظیر بھٹو کے نام سے آشنا ضرور تھا. اچانک میرے نانا جان نے ایک ٹی وی چینل پر خبر سنی کہ بے نظیر بھٹو  دھماکے میں ذخمی ہو گئیں ہیں.

گھر میں موجود تمام لوگ کمرے میں آ گئے اور دعا کررہے تھے کہ سب خیر عافیت ہی رہے. اسی اثناء میں ہی ایک خبر سننے کو ملی کہ  عظیم 
لیڈر بےنظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہی ...

ہمارے گھر میں موجود لوگوں میں میرے علاوہ کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہوئے ہوں. مجھے یاد ہے کہ میری والدہ اس وقت باورچی خانے میں تھیں، انہیں میں نے خبر دی کہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئی ہیں. انہوں نے سخت الفاظ میں میری سرزنش کی کہ یہ تم کیا کہے رہے ہو؟

بےنظیر بھٹو کے شہادت کی تصدیق اس وقت ہوئی جب ایڈوکیٹ بابر اعوان نے ہسپتال سے باہر آکر روتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کے بےنظیر صاحبہ اب ہم میں نہیں رہیں.

سن 1997ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی تھی اور بینظیر بھٹو اگلے ہی سال یعنی 1998ء میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے باہر چلی گئیں تھیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے اختتام پر سن 2007ء میں بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا. 18 اکتوبر 2007ء کو جب بے نظیر بھٹو وطن واپس پہنچیں تو کراچی ائرپورٹ پر شاندار استقبال ہوا.

 بےنظیر کا قافلہ رواں دواں تھا خود ٹرک پر سوار کارکنان کو ہاتھ ہلا ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں اچانک ایک دھماکے کی آواز سنی گئی. اور نہ جانے کتنی ہی معصوم جانیں اس حادثے کی نظر ہو گئیں. اس حادثے میں تو بے نظیر بھٹو محفوظ رہیں. مگر اس واقعے کے کچھ ہی ہفتوں بعد بے نظیر ظالم قوتوں کی شدت پسندانہ سوچ کا شکار ہو گئیں......

بے نظیر بھٹو ذہانت، دانش، نرم دلی اور شفقت کی خداداد صلاحیتوں سے اپنے عوام کے لئے آسانیاں اور آسودگیاں پیدا کرنا چاہتی تھیں۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فرائض بہ حسن و خوبی ادا کئے لیکن ان کا دور ریشہ دوانیوں کا ایسا شکار ہوا کہ انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ انہیں موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کے لئے کچھ کر سکیں اور جو وعدے لوگوں سے کئے تھے انہیں ایفا کر سکیں.

 وہ ملکی و غیر ملکی سازشوں کا شکار ہوئیں لیکن آخری وقت تک ان کے عزم، جراءت اور ہمت میں ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ دوبارہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ایسا روڈ میپ ترتیب دیا جس پر ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اپنے سنگ ہائے میل نصب کئے۔

بے نظیربھٹو ایک عہد ساز شخصیت تھیں جن کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن آپ نے ہمت اور دلیری سے جس طرح مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔جب دشمنانِ جمہوریت کا ہر حربہ ناکام رہا تو بےنظیر بھٹو کو ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلا دیا گیا. اور یہ بات ہمارے نظامِ عدل کا بہت بڑا المیہ ہے کہ آج تک اس عظیم لیڈر کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جا سکی...... 

(ریاستِ پاکستان کو چاہیے کہ ان قاتلوں کو سزا دے کر اپنے چہرے سے ان داغوں کو صاف کرے)

وہ لڑکی لال قلندر تھی

قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں

صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے

وہ قوم کی بیٹی تھی

جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے

وہ مردہ ہوکر زندہ ہے

تم زندہ ہوکر مردہ ہو

وہ دکھی دیس کی کوئل تھی

وہ لڑکی لال قلندر تھی !

وہ لڑکی لال قلندر تھی


 

 


Post a Comment

0 Comments