حقائق نامہ تحریر اختر چیمہ- سیالکوٹ

 حقائق نامہ

اختر چیمہ- سیالکوٹ

وہ اسلام جو علم کو بہت اہمیت دیتا ہے- قرآن پاک میں جا بجا علم و فن کی فضیلت کا ذکر ملتا ہے- فرمان نبویؐ کے مطابق حصول علم ہر مرد و زن کے لیے ضروری ہے- مگر عملاً ہمارا جو عالمانہ قد و قامت ہے کس قدر ندامت کا باعث ہے-

بھاپ کے انجن کا آغاز اک چولہے، برتن اور ڈھکن سے ہوا تھا اور دیکھو کہاں جا پہنچا لیکن یہ معمولی سا غیر ثواب یافتہ کارنامہ ہمارے تمہارے اور ہم جیسوں کے پرکھوں کے نصیب میں نہیں تھا- اس برصغیر کی اوقات تو یہ تھی کہ جب گندے گورے، بے راہرو فرنگی نے یہاں ریلوے ٹریک بچھانے کے عظیم الشان کام کا آغاز کیا- تو مقامی آبادی یہ کہتے ہوئے ننگے پاؤں دور کی کوڑی لائی کہ صاحب لوگ لوہے کے پٹے اس لئے بچھا رہے ہیں تاکہ اس ملک کو گھسیٹ کر انگلستان لے جا سکیں- 

جب ریل کا آغاز ہوا تو فرمایا صاحب لوگوں نے لوہے کے ڈبوں میں جن بھوت قید کر رکھے ہیں جو کوئلے کھاتے ہیں- ابلتا پانی پیتے ہیں، سٹیم یعنی بھاپ میں سانس لیتے ہوئے باہر نکلنے کی جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے
نتیجہ میں ریل چلتی ہے-

حقائق نا مہ 

ہینڈپمپ کو یہ بمبا کہتے تھے اور جب انہیں بائی سائیکل کے بارے میں بتایا گیا تو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ کوئی شے دو پہیوں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہے؟   

چچا غالب جیسا جینئس ماچس دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگ جیب میں لئے پھرتے ہیں- جبکہ یہاں محاورہ یہ تھا کہ آگ لینے آئی اور گھر والی بن بیٹھی- یہ جو معنک ناکوں پر عینکیں جمائے پھرتے ہیں- نہیں جانتے کہ بائی فوکل شیشہ 1760ء میں کسی پیر فقیر نے گفٹ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ریفریجریٹر کسی گرم ملک کی ایجاد ہے- بلکہ 1841ء میں امریکنوں نے دان کیا-

سلائی مشین 1833ء میں اسلم کی خالہ یا پھپھو نے نہیں بنائی تھی- ٹائلٹ پیپر اجاڑتے ہیں لیکن کبھی نہیں سوچتے کہ 1857ءمیں جنگ آزادی کے آگے پیچھے یہ بھی گوروں نے گفٹ کیا-

ظالمو ہم تو کپڑے ٹانگنے والے ہینگر تک کا کبھی نہ سوچ سکے اور یہ 1869ء کی یادگار ہے-

کینسر کے علاج کیلئے کیموتھراپی بھی پاکستان سے چند سال پرانی ہے- پولیو انجکشن 1952ء میں آیا جو آج بھی ملک عزیز کے معتدبہ طبقے کے نزدیک حرام ہے- معذور ہو جائیں گے سوچیں گے کبھی بھی نہیں- پھیپھڑوں کی پیوند کاری 1963ء اور دل کی سرجری کا آغاز 1964ء میں کرنے والے ہماری دانست میں بے راہرو ہیں- ٹریفک کے برقی اشارے 1912ء میں متعارف ہوئے جنہیں استعمال کرنے کی تمیز ابھی تک یہاں نہیں پہنچی-

 جب کہ ہم صراط مستقیم پر بیٹھے دودھ سے مرچوں تک میں ملاوٹ کر رہے ہیں- پیشہ ور گواہوں سے کچہریاں آباد ہیں- جھوٹ اور فراڈ ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے-

یہاں صرف ملی نغموں کا عروج ہے اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں- کیا واقعی بلاول اور اس ملک کے کروڑوں بیروزگار ایک ہیں؟ کیا کوئین مریم اور بھٹے پر کام کرتی شیداں واقعی ایک ہیں؟

 کیا گلاب دیوی اسپتال میں ٹی بی کے مارے مریض اور پرنس شہباز شریف

             ایک ہیں؟ کیا حبیب جالب اور اس کا گلوکار و اداکار بھی ایک ہیں؟             


Post a Comment

0 Comments